شاہی بحری جہاز انڈس کوئین: ماضی کی ملکہ اب ’بالکل ناکارہ‘
شاہی بحری جہاز انڈس کوئین: ماضی کی ملکہ اب ’بالکل ناکارہ‘
پیر 30 نومبر 2020 6:41
نذر عباس -رحیم یار خان
ریاست بہاولپور کے نواب صادق محمد خان عباسی نے 1867 میں برطانیہ سے ایک بحری جہاز خریدا جس کا نام انڈس کوئین یعنی دریائے سندھ کی ملکہ رکھا گیا۔
اس جہاز کو برطانیہ کی مشہور کمپنی ٹی ریڈ اینڈ سنز نے بنایا۔ بہاولپور کے اس شاہی بحری جہاز میں دنیا کی تمام تر سہولیات موجود تھیں۔ انڈس کوئین قیمتی لکڑی دیار، ساگوان، پیتل، لوہا اور متعدد دھاتوں سے تیار کیا گیا تھا۔ اس کو کیفے ٹیریا، بیڈ روم، مہمان خانہ اور نچلے حصہ میں آرائشی کمروں سے آراستہ کیا گیا تھا۔
یہ ایک محل نما جہاز تھا جس میں وائسرے ہند، برصغیر کے راجہ مہارجہ سفر کرتے تھے۔
نواب صادق محمد خان عباسی اس دریائے سندھ کی ملکہ پر برصغیر کے بادشاہوں، برطانیہ سے آئے شہزادوں اور اپنی بیوی کے ساتھ ستلج سے دریائے سندھ کی سیر کرتے اور شکار کرتے تھے۔ اس بحری جہاز میں ریاست بہاولپور سے سکھر تک کا سفر کیا جاتا تھا۔
پاکستان بننے کے بعد یہ عظیم الشان بحری جہاز پنجاب حکومت کے حصہ میں آیا تو اس کو دریائے سندھ میں دو اضلاع کے درمیان عوامی سفری سہولیات کے لیے دے دیا گیا اور روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مسافر ضلع راجن پور سے رحیم یار خان اور رحیم یار خان سے راجن پور آتے اور جاتے تھے۔
1996 میں اس جہاز میں اچانک آگ لگ لگی اور یہ شاہی بحری جہاز ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کا حصہ بن گیا۔ اب یہ جہاز کوٹ مٹھن کے ساتھ دریائے سندھ کے کنارے خستہ ،زنگ آلود حالت میں موجود ہے جس کا تمام قیمتی سامان چوری ہو چکا ہے اور اب یہ کار آمد نہیں رہا۔ جہاز کے نچلے حصے میں انجن بھی موجود تھے جو ڈیزل پر چلتے تھے، اب وہ بھی مکمل طور پر ناکارہ ہو چکے ہیں۔
جہاز کا تمام قیمتی سامان چوری ہو جانے کے بعد اس کی باقیات کو محفوظ کر نے کے لیے محکمہ ہائی وے کے چوکیدار یہاں دن رات نگرانی کے لیے تعینات کیے گیے ہیں۔
ریسرچ سکالر مجاہد جتوئی اس بحری جہاز انڈس کوئین کو تاریخی اہمیت کا حامل اثاثہ قرار دیتے ہیں۔
’جب انگریزوں اور نواب آف بہالپور کے درمیان تجارتی معاہدہ ہوا تو ملتان سے ریاست بہاولپور اور ریاست بہاولپور سے سکھر تک دریائی سفر کے لیے یہ جہاز لایا گیا اور اس جہاز پر وائسرے نے رحیم یار خان کے نزدیک ایک دریائی علاقہ بھونگ بھارا تک سفر کیا۔ جنگی جانوروں اور شیر کا بھی شکار کیا۔‘
ان کے مطابق ’جب دریا خشک ہوئے تو شنید ہے کہ نواب آف بہاولپور نے اپنے پیر ومرشد حضرت خواجہ غلام فرید کو تحفہ میں دیا اور خواجہ غلام فرید بھی اس جہاز پر سفر کرتے رہے اس جہاز کے نیچے تہہ خانہ میں کمرے بنے ہوئے تھے جس پر منفرد کام کیا گیا تھا یہ کمرے بادشاہوں اور وائسرائے کے کام آئے۔‘
ریسرچ سکالر مجاہد جتوئی نے مزید بتایا کہ ’یہ جہاز حقیقت میں ایک ملکہ یا شہزادی تھا۔ اس میں بہت نفاست سے کام کیا گیا تھا اور یہ ایک لگژری جہاز تھا اس کے ساتھ دو اور حفاظتی کشتیاں بھی چلتی تھی۔ جہاز کے ساتھ جنوبی پنجاب کے لوگوں کی روحانی اور ثقافتی وابستگی ہے۔ اس کی مرمت کر کے ہوٹل بنا کر محفوظ بھی کیا جا سکتا ہے اور پیسہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔‘
بحری جہاز کے کیپٹن اللہ دتہ کا کہنا ہے کہ وہ اس جہاز کو تیس سال تک چلاتے رہے ہیں۔
’یہ محل نما جہاز تھا اس میں کمرے بنے ہوئے تھے جس میں ہوٹل بھی تھا اور یہ تین منزلہ جہاز تھا قیمتی لکڑی دیار اور ساگوان کا کام ہوا تھا پھر اس میں آگ لگ گئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس جہاز میں روزانہ دو ہزار لوگ سفر کرتے تھے جبکہ خواجہ فرید کے عرس کے موقع پر بہت سے لوگ سفر کرتے تھے۔‘