Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قدامت پسند افغانستان کی خاتون ٹیٹو آرٹسٹ: ’اب ملک بدل چکا ہے‘

ثریا شاہدی نے ترکی اور ایران سے ٹیٹو بنانے کی تربیت حاصل کی (فوٹو: روئٹرز)
ثریا شاہدی افغانستان کے دارالحکومت کابل میں بہت احتیاط کے ساتھ اپنی ایک خاتون گاہک نرگس مرزئے کے بازو پر ٹیٹو بنا رہی ہیں جسے ان کے مطابق مذہبی لوگ ممنوع قرار دیتے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق دنیا بھر میں ٹیٹو بنوانا ایک عام سی بات ہے لیکن افغانستان جیسے قدامت پسند ملک میں یہ کام ممنوع سمجھا جاتا ہے اور ثریا شاہدی نے اس روایت کو توڑا ہے۔
ثریا کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں پہلی ٹیٹو آرٹسٹ ہیں اور بعض علما کہتے ہیں کہ ’اسلام میں ایسی چیزوں کی ممانعت کی گئی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’میں یہ کام بیرون ملک بھی کر سکتی تھی لیکن میں اسے افغانستان میں کرنا چاہتی تھی کیونکہ یہاں کوئی خاتون ٹیٹو آرٹسٹ نہیں ہے۔ ’یہاں نہ صرف خواتین بلکہ مرد بھی ٹیٹو بنوا سکتے ہیں۔‘
ثریا شاہدی نے ترکی اور ایران سے ٹیٹو بنانے کی تربیت حاصل کی ہے اور ان کا ماننا ہے کہ اسلام میں اس کام سے منع نہیں کیا گیا ہے۔
ان کے بقول ’کچھ ملا کہتے ہیں کہ ٹیٹو ممنوع ہیں جبکہ بعض اس کے اُلٹ بات کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ کابل میں ٹیٹو بنوانے والے نوجوانوں کی تعداد کم ہے لیکن اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ثریا نے روئٹرز کو بتایا کہ ’زیادہ تر گاہک اپنی کلائیوں، بازوؤں، گردن اور ٹانگوں پر ٹیٹو بنوانا چاہتے ہیں۔ لڑکیاں پھولوں، تتلیوں یا جن سے وہ محبت کرتی ہیں ان کے نام کے ٹیٹو بنوانا پسند کرتی ہیں۔ لیکن کچھ لڑکے ایسے ڈیزائنز منتخب کرتے ہیں جنہیں وہ نہیں بنا سکتیں۔‘

ثریا شاہدی کہتی ہیں کہ کابل میں ٹیٹو بنوانے والے نوجوانوں کی تعداد کم ہے لیکن اس میں اضافہ ہو رہا ہے (فوٹو: روئٹرز)

ثریا شاہدی کی گاہک نرگس مرزئے کافی عرصے سے ٹیٹو بنوانا چاہتی تھیں اور آخر کار انہوں نے اپنے بازو پر ٹیٹو بنوانے کا فیصلہ کیا۔
’میرا ٹیٹو ہندی زبان میں ہے اور اس کا مطلب بہادری ہے۔‘
افغانستان میں دیگر لوگوں کی طرح ثریا شاہدی کو بھی لگتا ہے کہ طالبان کی حکومت بنے گی لیکن ان کا کہنا ہے کہ ملک بدل چکا ہے۔
’ہم وہ لوگ نہیں جو آسانی سے حالیہ چند برسوں میں حاصل کی گئی کامیابیوں کو ہاتھ سے جانے دیں گے۔‘

شیئر: