سعودی عرب میں مقیم تارکین وطن کی جانب سے اپنے آبائی ملکوں میں رقومات بھجوانے میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پچھلے دس ماہ میں 123 اعشاریہ چار ارب ریال دوسرے ملکوں میں بھجوائے گئے جو 2019 کے مقابلے میں 18 اعشاریہ 58 فیصد زیادہ ہے۔
اس اضافے کی وجہ کورونا وبا سے پیدا ہونے والی صورت حال ہے اور لوگ وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ پیسے اپنے گھر والوں کو بھجوا رہے ہیں۔
یہ اضافہ عالمی بینک کی اس پیش گوئی کے باوجود سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ اس سال مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ممالک کے ترسیلات میں 19 اعشاریہ چھ فیصد کمی ہو گی کیونکہ کارکن وبا کی وجہ سے متاثر ہوں گے۔
مزید پڑھیں
-
7547 غیر قانونی تارکین گرفتارNode ID: 157196
-
ترسیل زر کیلئے خودکارمشین کا افتتاحNode ID: 367616
-
تارکین وطن کے ترسیل زر میں مسلسل کمی کیوں؟Node ID: 455971
دوسرے ممالک سے آنے والے کارکن مملکت میں کام کرنے والے 13 اعشاریہ چھ ملین کارکنوں کا تین چوتھائی حصہ ہیں جن میں زیادہ تر شام، انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیشن، فلپائن اور سری لنکا سے آئے ہیں۔
سعودی سنٹرل بینک کی جانب سے جاری ہونے والے اعدادوشمار سے ظاہر ہے کہ جنوری اور اکتوبر کے درمیان ترسیلات زر میں 18 اعشاریہ 58 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ سب سے زیادہ اضافہ جون کے مہینے میں ہوا جب 2019 کے مقابلے میں یہ 60 فیصد تک بڑھا۔
اسی طرح جولائی کے دوران 32 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اگست، ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں کے دوران بڑھنے کی شرح بالترتیب 24 اعشاریہ سات، 28 اعشاریہ پانچ اور 19 اعشاریہ دو فیصد رہی۔
ریاض میں قائم فنانشل سروسز کمپنی السدیری مازن کے ہیڈ الراجھی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں جی ڈی پی میں قرض کی شرح حال ہی میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ کورونا وبا کی وجہ سے بھی انڈیا اور فلپائن جیسے ممالک میں بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا ہے اور ان دونوں ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد مملکت میں موجود ہے۔
’اس لیے ہمیں یقین ہے کہ ترسیلات زر میں اضافے کی وجہ تارکین وطن کے ملکوں میں بے روزگاری بڑھنے کے علاوہ دیگر معاشی مسائل ہیں‘
انہوں نے کہا کہ ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ چونکہ وہ کورونا کی پابندیوں کے باعث اپنے ملکوں کا سفر نہیں کر سکتے اس لیے ان آمدنی میں بچت ہوئی ہے اس لیے وہ یہ رقم گھروالوں کو بھیج رہے ہیں۔