Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمار مسعود کا کالم

سیاسی تاریخ میں کئی مرتبہ خواتین رہنماؤں کے لیے نازیبا گفتگو کی گئی۔ فوٹو: اے ایف پی
بدھ 9 دسمبر کا دن شاید پاکستان سوشل میڈیا کی تاریخ میں غلیظ ترین دن تھا۔ اس دن ٹوئٹر ٹرینڈز کے نام پر جو غلاظت بکھری اس سے ایسا تعفن اٹھنے لگا کہ سانس لینا دوبھر ہو گیا۔
ابتدا اس سلسلے کی یوں ہوئی کہ سب سے پہلے مریم نواز کے خلاف ایک ایسے غلیظ اور شرمناک ٹرینڈ کا آغاز کیا گیا کہ جس کے ذکر کی اجازت تحریر کی طہارت نہیں دیتی۔ اس کے بعد وزیرِاعظم کی اہلیہ کے بارے میں بھی اسی طرح کا ایک ٹرینڈ شروع ہوا اور پھر ایک تیسرا ٹرینڈ بھی ٹاپ پر آ گیا۔ 
ن لیگ یا مریم نواز کے خلاف ایسے شرمناک ٹوئٹر ٹرینڈز کوئی نئی بات نہیں۔ سیاسی خواتین کی بے حرمتی ٹوئٹر پر بڑے اہتمام سے کی جاتی رہی ہے۔ یہ تو 9 دسمبر کی بات ہے اگر آپ کو یاد ہو تو منڈی بہاؤالدین میں مریم نواز کے جلسے سے پہلے جو ٹوئٹر ٹرینڈ پاکستان کا ٹاپ ٹرینڈ تھا اس کا ذکر کوئی شریف آدمی گھر کی تاریکی میں بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ سب کچھ سوشل میڈیا پر دن دیہاڑے ہو رہا تھا۔ کسی کو خواتین کی عصمت، حرمت، حمیت اور عفت کا خیال نہیں آیا۔ لمحوں میں غلاظت سڑاند بن کر تعفن پھیلانے لگی تھی۔  
سیاسی خواتین  کے ساتھ ہمارا یہ رویہ نیا نہیں تھا۔ ہم ماضی میں بے نظیر کے خلاف بھی اس طرح کی مہم چلا چکے ہیں۔ نصرت بھٹو اور بیگم کلثوم نواز سے بھی یہ رویہ رکھا گیا ہے۔ فاطمہ جناح بھی اس کی زد میں آچکی ہیں۔ خاتون کو کمزور جان کر ہم اپنی طاقت کا مظاہرہ ہمیشہ ہی گالی دے کر کرتے ہیں۔ اپنی قوت نہیں اوقات دکھاتے ہیں۔  

ٹوئٹر پر اکثر اوقات سیاسی قائدین کے حق یا مخالفت میں ٹرینڈز بنتے رہتے ہیں۔ فوٹو: ٹوئٹر

یہ ٹوئٹر ٹرینڈز کون بناتا تھا؟ ان میں سوشل میڈیا پر متحرک سیاسی ورکرز شامل تھے اور بیشتر لوگ فیک آئی ڈی والے ہوتے تھے جو روزی روٹی کمانے کے لیے مختلف جگہ گالم گلوچ پر مامور ہوئے تھے۔ ان کو نہ کسی اخلاقیات کا پاس ہوتا تھا نہ سمجھ۔ نہ کسی کی عزت کا خیال ہوتا تھا نہ اپنی غیرت ان کو اس کام سے روکتی تھی۔ یہ بس بنا دیکھے سنے حکم کے غلام کی طرح ایک ٹرینڈ میں شامل ہو جاتے تھے۔ خود بھی گندے ہوتے تھے اور دوسروں پر بھی کیچڑ اچھالتے تھے۔ ان کا کوئی حل کسی کے پاس نہیں ہوتا تھا۔ 
ٹوئٹر کو ایسی جگہ تصور کیا جاتا تھا جہاں کسی کے بارے میں کچھ بھی کہا جا سکتا ہے، کوئی بھی بے بنیاد الزام لگایا جا سکتا ہے، کسی کی عزت بھی اچھالی جا سکتی ہے۔ کسی کی بھی غیرت کا جنازہ نکالا جا سکتا ہے۔  
اس دفعہ جب مریم نواز پر ٹوئٹر ٹرینڈ بنا تو حیرت نہیں ہوئی اس لیے کہ یہ اپنے ہاں کا رواج ہو گیا ہے۔ لیکن اس کے جواب میں ٹوئٹر کے جو دو ٹاپ ٹرینڈ وجود میں آئے  وہ حیرت کا موجب ضرور تھے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اتنے غلیظ ٹرینڈز کا مقابلہ ہمارے لیے نئی بات تھی۔ یہ دو ٹوئٹر ٹرینڈز پہلے سے زیادہ ثابت قدم ثابت ہوئے اور دیر تک ٹاپ کے مقام پر رہے۔  
ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ نواز شریف نے لاہور میں سوشل میڈیا ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو یہ بات بڑے رسان سے سجھائی تھی کہ لوگوں سے اختلاف ضرور کریں مگر اس اختلاف میں تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑِیں، اخلاقیات کو کبھی درگزر نہ کریں۔ تو ایسے میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا وجہ ہوئی کہ ایک غلیظ ٹرینڈ کے جواب میں دو ایسے ہی غلیظ ٹرینڈ وجود میں آگئے۔

ماضی میں کلثوم نواز اور بے نظیر بھٹو پر کئی مرتبہ جھوٹے الزامات لگے۔  فوٹو: اے ایف پی

پہلا ٹرینڈ باقاعدہ منصوبہ بندی سے شروع کیا گیا تھا باقی دوغلیظ ٹرینڈ بظاہر احتجاج میں شروع کیے گئے ان کے پیچھے نہ کوئی ٹرولز کی فیکٹری تھی نہ گالی دینے والے ملازم پیشہ لوگ۔ نہ کوئی منظم سوچ تھی نہ کوئی باقاعدہ منصوبہ۔ یہ جوابی ٹرینڈ ایسے ہی کسی نے شروع کیے اور دیکھتے ہی دیکھتے ٹوئٹر کے افق پر دیر تک چھائے رہے۔ بے شمار لوگ اس غلیظ کھیل میں خود بخود شامل ہوگئے۔ ٹوئٹر کی زبان میں ایسے ٹرینڈ کو آرگینک ٹرینڈ کہتے ہیں۔  
میں کوئی ڈیجٹل ریسرچ کے امور کا ماہر نہیں ہوں لیکن میری دانست میں ان ٹرینڈز کے وجود میں آنے کی چند بنیادی وجوہات ہیں۔  
ایک تو یہ کہ لوگوں میں غم و غصہ پایا جاتا تھا اس کا کہیں نہ کہیں ضرور اظہار ہونا تھا۔ لوگ جب اکژیت میں تمسخر اور تضحیک کا مدت تک شکار ہوتے رہیں تو ایک دن آخر کار ان کی برداشت جواب دے جاتی ہے اور ان کا ردعمل  قدرتی ہوتا ہے۔ 
دوسرا اس طرح کے غلیظ ٹرینڈ کا موجد ہمیشہ سے سیاسی جماعتوں خصوصاً ایک جماعت کے پیشہ ور ٹرولز ہوتے تھے جو سوشل میڈیا پر جو چاہتے کرتے تھے۔
اب سوشل میڈیا بدل رہا ہے۔ اب اس پر مریم نواز اور ن لیگ کی حکمرانی ہے۔ یہ اتنا سچ ہے کہ اب ن لیگ اپنے ورکرز کے جلسے کو جلسہ نہیں کہتی بلکہ سوشل میڈیا ورکرز کنوشن کہتی ہے۔ یہ سوشل میڈیا اب پاکستان میں مریم نواز کی راج دھانی ہے۔ جنہوں نے ان سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کو ایک بہت متحرک سیاسی قوت میں بدل دیا ہے۔ اب لوگ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف بات نہیں سن سکتے۔ 
تیسرا یہ کہ گالی کھانے والے گالی کھا کھا کر اب گالیاں دینے بھی لگے ہیں۔ انہیں بھی اپنے لیڈروں کا دفاع کرنا آ گیا ہے۔  

سوشل میڈیا پر گالم گلوچ کا ذمہ دار پی ٹی آئی کے کارکنوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

چوتھا یہ کہ الیکٹرانک میڈیا پر من مانی کرنے والوں نے اب الیکٹرانک میڈیا کی اہمیت ہی ختم کر دی ہے۔ اب لوگ ہر بات جاننے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔ اگر الیکٹرانک میڈیا کے تن مردہ میں ذرا بھر بھی جان ہوتی تو سوشل میڈیا کے یہ ٹرینڈز اتنی شہرت نہ پاتے۔ 
پانچواں سبب یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر پیشہ ور ٹرولز جتنی مرضی کوشش کر لیں وہ سوشل میڈیا پر موجود عام آدمی اور اس کی قوت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لوگوں کی اکثریت اگر اپنی بات کہنے پر آ جائے تو بڑے بڑے برج گرا دیتی ہے۔ 
چھٹی اور آخری وجہ یہ ہے کہ ہر عمل کا بالاخر ردعمل ہوتا ہے۔ 
بہر حال نو دسمبر 2020 بروز بدھ کو ٹوئٹر کے ٹاپ ٹرینڈ ہماری اخلاقیات کا ایک ایسا جنازہ تھے جس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔

شیئر: