Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مکّہ: ’وادیِ غیر ذی زرع‘ کے آباد ہونے کی دلچسپ تاریخ

سنگلاخ چٹانوں اور بے آب و گیاہ میدانوں سے گِھرا ’مکہ‘ اپنے آباد ہونے کی دلچسپ تاریخ رکھتا ہے۔
قدرت نے سرزمین مکہ کو انسانیت کے روحانی مرکز کی حیثیت سے منتخب کیا اور اسے آباد کرنے کے لیے حضرت ابراہیم کی آل کو چُنا۔
کسے معلوم تھا کہ چند نفوس پر مشتمل اس بستی کو آنے والے دور میں ’اُم القریٰ‘ یعنی ’بستیوں کی ماں‘ پکارا جائے گا۔  
مکہ کو قرآن میں ’بکہ‘ کہا گیا ہے۔ ’بکہ‘ کے معنی ’ہجوم‘ کے ہیں اور اس نام کا اطلاق بیت اللہ اور اس کے اطراف مسجد الحرام پر ہوتا ہے۔ کتب تاریخ  میں’حاطمہ، باسّہ، البلد الامین، اُم القریٰ اور معاد‘ سمیت مکہ کے پچاس کے قریب نام مذکور ہیں۔   
یونانی جغرافیہ نویس ’بطلمیوس‘ نے دوسری صدی عیسوی میں اپنے جغرافیہ میں مکہ کو ’ماکورابہ‘ (macorba) لکھا ہے۔
یہ عربی لفظ ’مقربہ‘ کی تعریب ہے، جس کے معنی لوگوں کو معبودوں کے قریب لانے والا ہے۔   
مکہ جدہ سے 45 میل جانب مغرب میں واقع ہے اور سطح سمندر سے 909 فٹ بلند ہے۔ شہر ایک تنگ وادی میں واقع ہے جس کے دونوں طرف بے آب و گیاہ پہاڑوں کا دہرا سلسلہ ہے۔
ان پہاڑوں میں جبل عرفات، جبل ثور، جبل ابوقبیس، جبل ثبیر، جبل النور، جبل عمر، جبل کعبہ، جبل قعیقعان، جبل لعلع اور جبل خندمہ  شامل ہیں۔   
مکہ کی وادی مخصوص جغرافیے کی وجہ سے کاشت کاری اور باغبانی کے قابل نہیں تھی، اسی لیے جناب ابراہیم نے اسے ’وادی غیر زرع‘ پکارا۔ یعنی وہ وادی جہاں زراعت نہ ہوتی ہو۔   
آغاز میں مکہ کی حکمرانی ’بنوجُرہم‘ کے پاس تھی، جو بعد میں بنو خزاعہ کو منتقل ہوئی۔ مکہ پر تین سو سال تک قبیلہ بنو خزاعہ کا اقتدار رہا۔ جس کے بعد بنو اسماعیل میں سے ایک سربرآوردہ شخصیت ’قصی بن کلاب‘ نے ’بنو خزاعہ‘ سے مکہ چھین لیا، انہی ’قصی‘ کا لقب ’قریش‘ تھا۔   

مکہ کی وادی مخصوص جغرافیے کی وجہ سے کاشت کاری اور باغبانی کے قابل نہیں تھی، اسی لیے جناب ابراہیم نے اسے ’وادی غیر زرع‘ پکارا۔ photo by Abdul Mohsin Doman

قبیلہ قریش نے مکہ کی سیادت سنبھالنے کے بعد درج ذیل عہدے اور ادارے قائم کیے، جس کے نتیجے میں ایک باقاعدہ شہری حکومت ظہور میں آ گئی
1۔ سداتہ: کعبہ کی حفاظت اور اس کی خدمت ’سداتہ‘ کے تحت تھی۔  
2 ۔ سقایہ: اس ادارے کے ذمہ پانی کا انتظام تھا۔’سقایہ‘ کی خدمت ’بنی ہاشم‘ سے متعلق تھی۔  
3 ۔ رفادہ: اس ادارے کے تحت زائرین کعبہ کی مہمان نوازی کا فریضہ ادا کیا جاتا تھا۔ یہ خدمت پہلے ’بنی نوفل‘ اور پھر ’بنی ہاشم‘ کے حصے میں آئی۔   
4۔ عُقاب: یہ قریش کے قومی جھنڈے کا نام تھا۔عام طورجھنڈے کا محافظ ’بنوامیہ‘ کے خاندان میں سے ہوتا تھا۔   
5۔ دارالندوہ: یہ مکہ کی ’مشاورت گاہ‘ تھی۔ اس کا انتظام ’بنی عبد الدار‘ کے پاس تھا۔  
6۔ قیادہ:  قافلہ کی رہنمائی سے متعلق یہ منصب ’بنی اسد‘ کے پاس تھا۔  
7 ۔ قبہ: جب مکہ والے لڑائی کے لیے نکلنے کا ارادہ کرتے تو ایک خیمہ نصب کیا جاتا۔ اس خیمہ میں لڑائی کا سامان جمع کر دیا جاتا تھا۔ یہ ذمہ داری بھی قریش کے کسی خاندان سے متعلق ہوتی تھی۔   
8۔ حکومہ: اس ادارے کے تحت قریش کے باہمی  لڑائی جھگڑوں کا فیصلہ کیا جاتا تھا۔  
9۔ سفارہ: یہ عہدہ سفارت سے متعلق تھا جو ’بنو عدی‘ کے پاس تھا۔   

زمانہ جاہلیت میں تاریخ مکہ کا ایک اہم واقعہ ’ابرہہ‘ کا ہاتھیوں سمیت مکے پر ناکام حملہ ہے۔ ابرہہ کی فوج جب مکہ کے نواح میں ’وادی محصب‘ کے مقام ’محسر‘ میں پہنچی تو بحکم الہیٰ پرندوں کے غول نمودار ہوئے اور انہوں نے فوج پر کنکربرسا کر اسے تہس نہس کر دیا۔   
اہل مکہ کی معیشت کا انحصار تجارت پر تھا۔ سردارمکہ ’ہاشم‘ نے قیصر روم اور شاہ حبشہ نجاشی سے فرمان حاصل کیے تھے کہ قریش کے مال تجارت پر کوئی محصول نہ لیا جائے، چنانچہ عرب جاڑوں میں یمن اور گرمیوں میں شام اور انگورہ (انقرہ) تک تجارتی قافلے لے کر جاتے تھے۔   
حج کے زمانے میں مکہ کے قریب ’عکاظ‘ کا بازار لگتا جو ایک بڑی معاشی سرگرمی کے علاوہ ثقافتی میلے کی حیثیت بھی رکھتا تھا۔  

اہل مکہ کے بازار بیت اللہ کے پاس لگتے تھے۔ مکہ میں رومی، ایرانی اور ساسانی سکوں کا چلن تھا جو درہم و دینار کہلاتے تھے۔ جب کہ صاع، مُد، رطل، اوقیہ، اور مثقال جیسے ناپ اور تول کے پیمانے رائج تھے۔  
رمضان 8 ہجری میں فتحِ مکہ کے بعد پیغمبرِ اسلام نے اہل مکہ کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ کعبے سے بتوں کا خاتمہ کرکے اس مرکز توحید کی پہلی حیثیت بحال کردی۔   
حضرت عمر نے مکہ سے مدینہ تک ہر منزل پر چوکیاں اور سرائیں تعمیر کرائیں، حرم کعبہ کی توسیع کرائی، اس کے گرد دیواریں کھنچوائیں اور کعبے پر مصری کپڑے کا غلاف چڑھایا ۔ حضرت عثمان نے بھی سرائے تعمیر کرائیں اور میٹھے پانی کے کنویں کھدوائے۔   
سنہ 1930 میں تیل کی دریافت اور برآمد سے ملک کی خوشحالی اور اقتصادی خودمختاری کا نیا دور شروع ہوا اور اہل مکہ خوشحال ہونے لگے۔   

آج آل سعود کی زیر حکمرانی مکہ ایک جدید شہر بن چکا ہے، حرم کی توسیع اور تزئین و آرائش کے ساتھ زائرین کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنے کے لیے جدید ترین منصوبے روبہ عمل لائے جا رہے ہیں۔
شہر میں جا بہ جا انڈر پاسز، اور پُلوں کا جال بچھا دیا گیا ہے جو ٹریفک روان دواں رکھنے میں معاون ہے۔ اس کے علاوہ جدید ہسپتال، کالجز اوراُم القریٰ یونیورسٹی کے ذریعے صحت اور تعلیم کی معیاری سہولیات بھی موجود ہے۔   

مکہ کے چند اہم قابل دید مقامات مندرجہ ذیل ہیں:   
1۔ جبل ابو قبیس : اس پہاڑ پر شق القمر کا مشہور واقعہ ظہور میں آیا۔   
2۔  جنت المُعَلٰی: اس تاریخی قبرستان میں چھ ہزار جلیل القدر صحابہ کرام کی قبریں ہیں۔   
3۔ غارِحرا: یہ غار مکہ کے شمال  میں تین میل کے فاصلے پر جبل نور میں واقع ہے۔   
4۔ غار ثور: یہ غار مکہ سے جنوب کی طرف تقریباً سات میل دور ’جبل ثور‘ میں واقع ہے۔  
5۔ جبل رحمت: میدان عرفات کے پہلو میں واقع اس پہاڑ پر پیغمبر اسلام نے آخری خطبہ دیا تھا۔    
6۔ مسجد المشعر الحرام: یہ مسجد مزدلفہ  میں واقع ہے۔ یہ میدان عرفات کی مسجد نمرا اور منیٰ کی مسجد الخیف کے بیچوں بیچ ہے۔  
7۔ مسجد خیف: مسجد خیف منیٰ میں جمرۂ صغریٰ کے قریب واقع ہے۔   
8۔ مسجد عائشہ: یہ مسجد وادی تنعیم میں مسجد حرام سے سے چھ کلومیٹر دور مدینہ روڈ پر واقع ہے۔    
9۔ مسجد الرایہ: رایہ عربی زبان میں جھنڈے کو کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس جگہ پیغمبر اسلام  نے فتح مکہ کے موقع پر اپنا جھنڈا نصب فرمایا تھا۔   
10۔ مسجد جن: اسے مسجد بیعت اور مسجد الحرس بھی کہتے ہیں۔  

شیئر: