خیال رہے کہ تنازعات کا شکار ہونے والے لاہور کے سابق سی سی پی او عمر شیخ نے لاہور پولیس چیف کا عہدہ سنبھالتے ہی پولیس میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی تھیں۔
انہوں نے چار مہینوں کے اندر 12 سو 63 تبادلے کیے اور سو افسران اور اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیا۔
گزشتہ ہفتے عمر شیخ کو پولیس چیف کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور ان کی جگہ غلام محمود ڈوگر کو سی سی پی او لگا دیا گیا ہے۔
لاہور پولیس کے ایک اعلی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’نئے سی سی پی او نے عہدہ سنبھالتے ہی وہ بلیک لسٹ ختم کردی ہے جو عمر شیخ نے بنائی تھی۔ اسی طرح جو پولیس افسران اور اہلکار ان کے عتاب کا نشانہ بنے ان میں سے ہر ایک کیس کو الگ سے دیکھا جا رہا ہے۔ اور ہر ایک کو فرداً فرداً سنا جائے گا۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چھ جنوری کو لاہور پولیس کی اعلیٰ سطحی میٹنگ ہو رہی ہے جس میں سابق چیف کی طرف سے ہونے والے تمام اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا اور اس میں اہم فیصلے بھی ہوں گے۔
عمر شیخ نے چار ماہ کے دوران 12 سو 63 تبادلے کیے اور سو افسران اور اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیا (فوٹو: اے ایف پی)
لاہور کے نئے پولیس چیف جی ایم ڈوگر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’عمر شیخ ہمارے لیے محترم ہیں لیکن ہر پولیس سربراہ کی اپنی ٹیم ہوتی ہے۔ شیخ صاحب کی اپنی ٹیم تھی۔ اب میری ذمہ داری ہے تو میں تو پولیس افسران اور اہکاروں کی بات سنوں گا اگر کسی کو محکمے سے کوئی شکائت ہو گی تو اسے دور کیا جائے گا۔‘
عمر شیخ کو لاہورسیالکوٹ موٹر وے پر پیش آنے والے ریپ کے واقعہ کے بعد لاہور کا پولیس چیف لگایا گیا تھا کہ وہ جرائم پر قابو پائیں گے، تاہم ان کی تعیناتی کے ساتھ ہی ان کے ساتھ کئی متنازع بیانات منسوب ہونا شروع گئے۔
ان کا پہلا متنازع بیان خواتین کے گھروں سے اپنے محرم کے بغیر نکلنے سے متعلق تھا بعد میں انہوں نے اس بیان کی معافی بھی مانگی۔
تین مہینے بعد ہی ان کی کارکردگی سے متعلق سنجیدہ سوالات اٹھنا شروع ہو گئے تھے انہوں نے اپنی تعیناتی کے دوران کئی جونیئر پولیس افسران کو گرفتار کروایا اور ان کے خلاف تادیبی کارروائی بھی کی۔