سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا ہے کہ ’اوپن بیلٹ کے ذریعے سینیٹ انتخابات کے حوالے سے صدارتی ریفرنس میں اٹھایا گیا سوال قانونی، نچوڑ اخلاقی لیکن معاملہ سیاسی ہے۔‘
اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’آپ کے مقدمے کا محور اخلاقیات پر مبنی ہے جبکہ معاملہ سیاسی ہے۔ حکومت عدالت سے کیوں رائے مانگ رہی ہے پارلیمنٹ سے رجوع کرے۔‘
اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’میں ایسی 11 مثالیں دے سکتا ہوں جن میں عدالت نے سیاسی پہلوؤں کے باوجود فیصلے دیے۔‘
مزید پڑھیں
-
خفیہ ووٹنگ کے متبادل شو آف ہینڈز کا کیا مطلب اور یہ ہو گا کیسے؟Node ID: 525066
-
’سینیٹ انتخابات شو آف ہینڈ نہیں بلکہ اوپن بیلٹ کے ذریعے ہوں گے‘Node ID: 525611
بدھ کو سپریم کورٹ میں سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’حکومت سپریم کورٹ میں صرف رائے لینے آئی ہے۔ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے سے متعلق قومی اسمبلی کی قرارداد بارے سپریم کورٹ رائے دے چکی ہے۔‘
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ ’آپ کی بنگلہ دیش والی دلیل درست ہے۔‘ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’اگر وہ بات وہاں درست تھی تو پھر یہاں بھی ٹھیک ہے۔ سپریم کورٹ نے دوہری شہریت کے مقدمات میں قانون کی تشریح کرتے ہوئے سیاست دانوں کو نااہل کیا۔ پارلیمنٹیرینز کے اثاثے ظاہر کرنے کا معاملہ سیاسی تھا لیکن عدالت نے اس پر بھی قانون کی تشریح کی۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’حکومت ووٹوں کی خرید و فروخت روکنے اور شفافیت کے لیے سپریم کورٹ آئی ہے۔ میں اپنی بات اس سے زیادہ سادہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی چیئرمین، وزیراعظم اور وزرائے اعلٰی کے انتخابات الیکشن کمیشن اور الیکشن ایکٹ میں واضح نہیں ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آئین میں سپیکر اور چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کا طریقہ کار درج نہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ اور سپیکر کے الیکشنز ایوان خود کراتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 53 میں سپیکر کے انتحابات کا ذکر ہے۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب بھی الیکشن کمیشن نہیں کرواتا۔ ان عہدوں کا انتخاب الیکشن ایکٹ کے تحت بھی نہیں ہوتا۔ ارکان سینیٹ کا انتخاب الیکشن ایکٹ کے تحت ہوتا ہے۔‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’آرٹیکل 226 کے مطابق وزیراعظم اور وزیراعلٰی کے علاوہ تمام الیکشنز خفیہ ووٹنگ سے ہوں گے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’قانون کے تحت ہونے والے انتخابات کا باب ہی الگ ہے۔ آرٹیکل 226 کا اطلاق ہر الیکشن پر نہیں ہوتا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آرٹیکل 226 کا اطلاق ہو تو مخصوص نشستوں کے انتخابات ہو ہی نہیں سکتے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشنز قانون کے تحت ہوتے ہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’تمام قوانین بنے ہی آئین کے مطابق ہیں۔ مخصوص نشستوں پر پارٹیاں نمائندگی کی فہرست دیتی ہیں۔ رکن صوبائی اسمبلی تجویز اور تائید کنندہ ہوں تو آزاد امیدوار بھی سینیٹ الیکشن لڑ سکتا ہے۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’انتخابات میں لوگ امیدوار نہیں پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔ کوئی رکن صوبائی اسمبلی پارٹی کے خلاف ووٹ دینا چاہتا ہے تو سامنے آکر دے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ایم پی اے جس کو مرضی ووٹ دے تو پارٹی کیسے چلے گی؟ پارٹی کا نمائندہ ڈسپلن کا بھی پابند ہوتا ہے۔ پارٹی سے اختلاف ہو تو مستعفی ہوکر دوبارہ منتخب ہو جاتا ہے۔‘
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ’آپ اخلاقی بات کر رہے ہیں جبکہ عدالت میں معاملہ سیاسی ہے۔ اخلاقی اور سیاسی معاملے پر عدالت اپنی رائے کیوں دے؟‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’منتحب نمائندہ عوام اور پارٹی سربراہ کو جواب دہ ہوتا ہے۔ ایم پی اے کو خفیہ رائے شماری میں آزادانہ ووٹ کا حق دینا اہم سوال ہے۔ خفیہ ووٹنگ میں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینا بے ایمانی ہوگی۔‘
