پاکستان کی وفاقی حکومت نے ایوان بالا سینیٹ کے انتخابات کا طریقہ تبدیل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ شو آف ہینڈز کے ذریعے انتخابات کروائے گی۔
اس حوالے سے متعلقہ قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا جائے گا۔
پاکستان کے آئین اور الیکشن قواعد کے تحت سینیٹ کا الیکٹورل کالج چاروں صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی ہے۔
مزید پڑھیں
-
دوہری شہریت والے پاکستانی الیکشن میں حصہ لے سکیں گے؟
Node ID: 503176
-
استعفے ہمارا ایٹم بم، استعمال پی ڈی ایم مل کر کرے گی: بلاول بھٹو
Node ID: 524981
-
’حکومت کا سینیٹ کے انتخابات فروری میں کروانے کا فیصلہ‘
Node ID: 525001
سابق سیکرٹری سینیٹ افتخاراللہ بابر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’شو آف ہینڈز کے ذریعے ووٹنگ کے لیے لازم ہے کہ حکومت پہلے آئینی ترمیم کرے۔ الیکشن رولز میں تبدیلی لائے اور اس کے بعد ووٹنگ کرائے۔‘
ان کے مطابق سمجھ نہیں آتی کہ حکومتی آئینی ترمیم کے لیے سپریم کورٹ سے مشورے کے آپشن پر کیوں غور کر رہی ہے۔ ’آخر کار سپریم کورٹ نے بھی قانون سازی ہی کی تجویز دینی ہے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/December/36511/2020/183165_8104862_updates.jpg)
انھوں نے کہا ’شو آف ہینڈز کے ذریعے انتخابات کا طریقہ جو سمجھ آتا ہے اس کے مطابق جس طرح آئین سازی کے ذریعے ایک ایک ترمیم پر ووٹنگ کرائی جاتی ہے اسی طرح ہر امیدوار کا نام پکارا جائے گا اور جو اکثریتی ووٹ لے گا وہی کامیاب ہوگا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ انتہائی تکنیکی مسئلہ ہے جس کے لیے بہت غور و فکر کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی جماعت صوبائی اسمبلی میں اپنی نمائندگی کے مطابق سینیٹ میں نمائندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو۔‘
’اس کے لیے ووٹنگ پولز بھی بنائے جا سکتے ہیں جس طرح ہر اسمبلی میں جماعتیں اپنے ارکان کو تقسیم کرکے ان کو کسی ایک امیدوار کو ووٹ دینے کی پابند بنا دیتی تھیں۔ اب بھی ترمیم کے ذریعے ایسے پولز بنائے جا سکتے ہیں اور پھر ان پولز کے لیے متعلقہ امیدوار کے لیے شو آف ہیںڈز کے ذریعے ووٹ لیے جائیں گے۔‘
خیال رہے کہ متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت چاروں صوبائی اسمبلیوں سے برابر کی تعداد میں سینیٹر منتخب ہو کر آتے ہیں جن میں جنرل، ٹیکنوکریٹ ، اقلیتی اور خواتین کی نشستیں بھی شامل جبکہ وفاقی دارالحکومت سے چار سینیٹرز کا انتخاب قومی اسمبلی سے خفیہ ووٹنگ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
سینیٹ انتخابات کا طریقہ کار انتہائی پیچیدہ ہے جس کے لیے پنجاب اسمبلی سے کسی بھی امیدوار کو جیتنے کے لیے 47، سندھ اسمبلی سے 21، خیبر پختونخواہ سے 16 اور بلوچستان سے نو ووٹ لینا ہوتے ہیں۔ یعنی ہر صوبائی اسمبلی کے اتنے ارکان مل کر ایک ایک سینیٹر کا انتخاب کرتے ہیں اور کسی بھی امیدوار کو مطلوبہ ووٹوں سے زیادہ ملنے والے ووٹ پارٹی کے اگلی ترجیحی امیدوار کو منتقل ہو جاتے ہیں۔
اسی طریقہ کار کا فائدہ اٹھا کر ہی امیدواروں کو خریدنے کی شکایات ہر الیکشن میں سامنے آتی ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے نومبر میں اپوزیشن سے کہا تھا کہ حکومت شو آف ہینڈ کے ذریعے سینیٹ انتخابات کروانا چاہتی ہے۔
پارلیمنٹ میں حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں اس لیے اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ اس کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کرے تاکہ ہارس ٹریڈنگ کا خاتمہ ہو۔
ملکی سیاسی ماحول کی وجہ سے ابھی تک حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس معاملے پر کسی قسم کا رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/December/36511/2020/imran-khan-1-e1600275859664-696x444_1.jpg)