Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

براڈشیٹ تنازع: ’کابینہ کمیٹی 48 گھنٹوں میں سفارشات پیش کرے گی‘

وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کمیٹی کے کنوینیئر ہوں گے (فوٹو:ٹوئٹر)
وزیراعظم عمران خان نے نیب اور براڈشیٹ کے تنازع کے معاملے پر تین رکنی کابینہ کمیٹی قائم کر دی ہے۔  
وزیر اطلاعات شبلی فراز نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’وزیراعظم نے براڈ شیٹ کے معاملے پر تین رکنی کابینہ کمیٹی تشکیل دی ہے۔‘ ٹویٹ کے مطابق شبلی فراز کمیٹی کے کنوینیئر ہوں گے۔ شیریں مزاری اور فواد چوہدری کمیٹی میں شامل ہیں۔  
وفاقی وزیر اطلاعات کی ٹویٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ کمیٹی کابینہ کو 48 گھنٹوں میں براڈشیٹ معاملے پر سفارشات پیش کرے گی اور اس معاملے میں فائدہ دینے والے اور اٹھانے والے تمام لوگوں کے خلاف کارروائی کرے گی۔  
کابینہ کمیٹی کی تشکیل سے متعلق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ کابینہ کمیٹی براڈشیٹ کے معاملے پر اپنی سفارشات وزیراعظم عمران خان کے سامنے رکھے گی۔
’وزیراعظم عمران خان نے براڈشیٹ کے معاملے پر تمام حقائق منظر عام پر لانے کا فیصلہ کرتے ہوئے کمیٹی قائم کی ہے۔‘
شیخ رشید احمد نے کہا کہ کمیٹی 2002 سے 2018 تک براڈشیٹ کےساتھ معاہدے کا جائزہ لے گی۔ بقول ان کے فائدہ لینے کی کوشش کرنے والے والوں کے خلاف کارروائی کی سفارشات بھی وزیراعظم کو پیش کی جائیں گی۔ 

2000  میں جنرل پرویز مشرف کے بنائے گئے نیب اور اثاثہ جات ریکوری کی فرم براڈشیٹ کے درمیان معاہدہ ہوا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

نیب اور براڈشیٹ تنازع ہے کیا؟ 
2000  میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے بنائے گئے نیب اور اثاثہ جات ریکوری کی فرم براڈشیٹ کے درمیان نواز شریف، بے نظیر بھٹو، آصف زرداری اور 200 پاکستانیوں کے غیر ملکی اثاثوں کی چھان بین کے لیے معاہدہ ہوا تھا۔  
2003 میں پاکستان کی طرف سے معاہدہ ختم کر نے کے بعد براڈ شیٹ نے لندن کی عدالت میں پاکستان کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا تھا۔
حال ہی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے آف شور فرم براڈ شیٹ ایل ایل سی کو لندن ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ سے ساڑھے چار ارب روپے سے زائد جرمانے کی رقم کی ادائیگی کے بعد نیب اور اثاثہ جات ریکوری فرم کے درمیان کرپٹ افراد کے بیرون ملک اثاثے پکڑنے کے معاہدے کا ڈراپ سین ہو گیا ہے۔ 
اب یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ حکومت اور نیب اس معاہدے کی بدولت کسی سیاستدان کے غیر ملکی اثاثے تو نہ پا سکے مگر قومی خرانے کو ان ساڑھے چار ارب کے علاوہ کروڑوں روپے غیر ملکی وکلا کی فیس کی مد میں بھی ادا کرنا پڑے۔ 

معاہدے کے مطابق نواز شریف، بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری سمیت 200 پاکستانیوں کے اثاثوں کی چھان بین کی جانا تھی (فوٹو: اے ایف پی)

نیب نے اس حوالے سے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ نیب کی موجودہ انتظامیہ کا براڈ شیٹ معاہدے سے کوئی تعلق تھا نہ لندن میں اس حوالے سے عدالتی کارروائی موجودہ نیب انتظامیہ کے ایما پر شروع ہوئی تھی۔ 

نیب اور براڈ شیٹ معاہدہ، کون سے نکات شامل تھے؟

1999 میں جنرل پرویز مشرف وزیراعظم نواز شریف کو معذول کرنے کے بعد اقتدار میں آئے تو انہوں نے کرپٹ سیاستدانوں کےخلاف کڑے احتساب کا وعدہ کیا اور اس مقصد کے لیے قومی احتساب بیورو نیب قائم کیا گیا۔ 
اسی دوران انہوں نے نیب کے بانی چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد کے ذریعے ایک غیر معروف آف شور کمپنی براڈ شیٹ ایل ایل سی کے ساتھ جون 2000 میں ایک خفیہ معاہدہ کیا۔ 
ان افراد م کی لسٹ میں ٹاپ ٹارگٹ نواز شریف اور ان کا خاندان تھا جبکہ لسٹ میں بے نظیر بھٹو، آصف زرداری کے علاوہ دیگر افراد بھی شامل تھے۔
معاہدے کی رو سے براڈشیٹ کو پتا لگائے گئے اثاثوں کی مالیت کا 20 فیصد ادا کیا جانا تھا جبکہ کمپنی نے ان اثاثوں کی ریکوری کے لیے پیشہ ورانہ، مالی اور دیگر وسائل مہیا کرنا تھے۔ اس کے علاوہ آف شور فرم کو کئی لاکھ ڈالر فیس کی مد میں بھی ادا کیے گیے۔ 

وفاقی وزرا شیریں مزاری اور فواد چوہدری کابینہ کمیٹی میں شامل ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم 2003 میں پاکستان حکومت نے یہ کہہ کر یہ معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کر دیا کہ فرم کی جانب سے کوئی قابل عمل اطلاعات فراہم نہیں کی گئیں جبکہ فرم کا موقف تھا کہ اس نے لسٹ میں شامل افراد کے اثاثوں کے حوالے سے قابل ذکر معلومات فراہم کی ہیں تاہم نیب نے ان افراد سے اس معلومات کی بنا پر ڈیل کر لی ہے۔ 
 اسی دعوے کی بنیاد پر براڈ شیٹ ایل ایل سی نے حکومت پاکستان اور نیب کے خلاف لندن ہائی کورٹ میں جرمانے کا دعویٰ کر دیا۔ عدالت میں پاکستان کی جانب سے بھی وکلا مقرر کیے گئے اور معاملہ چلتا رہا۔ 

براڈ شیٹ کے حق میں فیصلہ

دسمبر 2018 میں فیصلہ براڈ شیٹ کے حق میں ہو گیا تاہم کمپنی نے 550 ملین ڈالر کا دعویٰ کیا تھا مگر انگلش کورٹ آف اپیل کے سابق جج سر انتھونی ایونز نے بطور ثالث کمپنی کو21 اعشاریہ سات ملین ڈالر کی ادئیگی کا حکم دیا۔ 
پی ٹی آئی کی حکومت آنے کے بعد جولائی 2019 میں پاکستان نے فیصلے کے خلاف اپیل بھی دائر کی مگر فیصلہ تبدیل نہیں ہوا۔ بالآخر جرمانے کی رقم کے ساتھ روزانہ لاگو ہونے والی سود کی رقم کے ساتھ 28 اعشاریہ سات ملین ڈالر (تقریباً چار ارب ساٹھ کروڑ روپے) پاکستان اور نیب کو ادا کرنے کا حکم جاری ہوا۔

شیئر: