ساتھ ہی ریڑھی والے سے پولیس والے امرود خرید کر کھا رہے تھے۔ فوٹو: اردو نیوز
اسلام آباد میں منگل کو سہ پہر ساڑھے تین بجے حزب اختلاف کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ (پی ڈی ایم) کے الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاجی مظاہرے کے لیے روانہ ہوا، تو ہجوم میں پھنس جانے کے خدشے کے پیش نظر گاڑی قریبی علاقے میلوڈی میں ہی پارک کردی اور پیدل عازم سفر ہوا، تاہم راستے میں ایسا کوئی تاثر نہیں ملا کہ مظاہرے کے باعث زندگی کا نظام رکا ہوا ہو بلکہ ٹریفک رواں دواں تھی اور سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔
نادرا کے ہیڈکوارٹرز کے باہر کئی ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جو سیاسی جماعتوں کے بیج لگائے مظاہرے سے واپس آ رہے تھے۔ حیرت ہوئی کہ ابھی تو مرکزی قائدین کی تقاریر بھی شروع نہیں ہوئیں تو لوگ واپس کیوں جا رہے ہیں؟
شاہراہ دستور پر پہنچا تو وزیراعظم سیکریٹیریٹ کے سامنے سیاسی جماعتوں کے سننے کو ملے جبکہ پارٹیوں کے جھنڈے اور عام لوگوں کی گہما گہمی دیکھ کر ایک دم نگاہوں کے سامنے چودہ سال قبل کا منظر آ گیا جب اسی مقام پر سیاسی جماعتوں نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے مہم شروع کی تھی۔ اس کے بعد 2014 میں موجودہ وزیراعظم عمران خان کا دھرنا بھی ہوا تھا اور آج سات سال بعد ریڈ زون میں شاہراہ دستور پر تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرا رہی تھی۔
تاہم حیرت اس بات کی تھی کہ اس بار سڑک پر بڑی تعداد میں مظاہرین کی گاڑیاں بھی موجود تھیں اور پولیس اور سیکورٹی کے اہلکاروں کی بھاری نفری کے باوجود فضا میں کوئی ارتعاش نہیں تھا بلکہ شاہراہ دستور پر ریڑھیوں والے کھانے پینے کی اشیا بیچ رہے تھے اور رنگ برنگی ٹوپیاں اور لباس پہنے سیاسی کارکن کھانے پینے میں مصروف تھے۔
ایک گاڑی کے ارد گرد ہجوم نظر آنے پر قریب جا کر دیکھا تو وہاں ڈبوں میں بند چاول کارکنوں میں تقسیم کیے جا رہے تھے۔ ساتھ ہی ریڑھی والے سے پولیس والے امرود خرید کر کھا رہے تھے۔
تھوڑا سا آگے بڑھا تو درجن بھر لوگ باجماعت نماز ادا کررہے تھے جبکہ سٹیج سے پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی کی تقریر کی آواز آ رہی تھی۔ سڑک پر لوگوں سے زیادہ گاڑیاں نظر آ رہی تھیں۔
الیکشن کمیشن کے دفتر کے بالکل سامنے پہنچا، جہاں مرکزی قائدین کا کنٹینر تھا تو وہاں مجمع خاصا بڑا تھا۔ تاہم قائدین کا رُخ الیکشن کمیشن کے بجائے سڑک کے بائیں جانب موجود وزیراعظم سیکریٹیریٹ کی طرف تھا۔ کنٹینر پر پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نمایاں نظر آ رہے تھے جبکہ ان کے ساتھ مریم نواز، راجہ پرویز اشرف، محمود اچکزئی اور پروفیسر ساجد میر بھی موجود تھے۔ تاہم سٹیج کے قریب بھی کارکنوں میں خاصا جوش و خروش نظر نہیں آیا۔ آج لگتا تھا کسی اچھے ڈی جے کا بھی اہتمام نہیں کیا گیا تھا اس لیے دوران تقریر گانے نہیں چلائے جا رہے تھے تاہم دور کھڑی گاڑیوں پر سیاسی ترانے چل رہے تھے۔
وزیراعظم سیکریٹیریٹ کے سامنے سبزہ زار میں سردی کی میٹھی دھوپ میں جمعیت علمائے اسلام کے کارکن سستا رہے تھے اور کچھ نماز پڑھ رہے تھے۔ جلسہ گاہ میں زیادہ تعداد میں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے جھنڈے نظر آ رہے تھے تاہم کارکن جے یو آئی کے بھی زیادہ تعداد میں موجود تھے۔ اے این پی اور دیگر علاقائی جماعتوں کے کارکن خال خال ہی نظر آئے۔ ہر طرف لوگ ٹولیوں کی شکل میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
وہاں موجود ایک صحافی کا کہنا تھا کہ شاید مریم نواز کا راولپنڈی سے ریلی کی شکل میں نہ آنا بہتر فیصلہ ثابت نہیں ہوا اور کارکن اتنی بڑی تعداد میں نظر نہیں آئے جتنی توقع تھی۔ تاہم ان کا یہ کہنا تھا کہ ریڈ زون میں داخل ہونے والی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی ریلیاں خاصی بڑی تھیں شاید مرکزی قیادت کی تقاریر سے پہلے بھی کئی کارکن واپس روانہ ہو گئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کئی ہفتوں کی تحریک کے بعد قیادت کے ساتھ ساتھ کارکن بھی کچھ تھک گئے ہیں۔
مریم نواز کی تقریر شروع ہوئی تو وہاں موجود کارکنوں کا جوش و خروش بھی بڑھ گیا، پھر مولانا کی تقریر کے وقت نعرے بھی لگنا شروع ہو گئے تھے۔ جلسہ گاہ میں موجود ن لیگ کی رہنما عظمیٰ بخاری سے کم تعداد میں کارکنوں کا پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ آپ کا کمنٹ فئیر نہیں ہے بلکہ یہ ایک تاریخی جلسہ ہے۔
واپسی پر کچھ کارکنوں سے بھی جوش و خروش کی کمی کا پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کی یہ سیاسی تحریک کوئی کرکٹ کا ٹی 20 میچ نہیں بلکہ ایک ٹیسٹ میچ ہے اس لیے یہ لمبی چلے گی اور ابھی اس کی کامیابی اور ناکامی پر رائے دینا قبل ازوقت ہے۔ اب یہ ٹیسٹ میچ کتنا لبما چلے گا اور فتح کس کی ہوگی یہ وقت ہی بتائے گا، تاہم اسلام آباد والوں کے رہائشی اس بات پر خوش ہیں کہ ریڈ زون میں اپوزیشن کا یہ احتجاج پرامن طور پر ختم ہو گیا اور معمولات زندگی معطل نہیں ہوئے۔