Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عزیر بلوچ ایک کے بعد ایک مقدمے میں بری لیکن’رہائی کا امکان کم‘

حالیہ دنوں میں جن کیسز میں سول اور انسدادِ دہشت گردی عدالت نے عزیر بلوچ کو بری کیا ان میں وہ براہ راست نامزد نہیں تھے (فوٹو بشکریہ :پی آر او)
لیاری کی پیپلز امن کمیٹی کے زیر حراست سربراہ عزیر جان بلوچ دو ہفتوں کے دوران چار مقدمات میں عدم شواہد کی وجہ سے بری ہوئے لیکن ان کی رہائی کے تاحال امکانات معدوم ہیں کیونکہ ان کے خلاف دہشت گردی کے 40 مقدمات سمیت 50 سے زائد مقدمات ابھی بھی زیر سماعت ہیں۔
عزیر بلوچ پاکستان رینجرز سندھ کی تحویل میں ہیں اور انہیں کراچی میں میٹھا رام ہاسٹل میں زیرِ حراست رکھا گیا ہے اور ہاسٹل کی عمارت کو سب جیل کا درجہ دیا گیا ہے جبکہ مقدمات کی سماعت کراچی سینٹرل جیل میں خصوصی طور پر قائم عدالتوں میں کی جا رہی ہے۔
سینٹرل جیل کے اندر انسدادِ دہشت گردی اور سیشن کورٹ قائم ہے جہاں خطرناک ملزمان کے خلاف مقدمات کی سماعت کی جاتی ہے۔
گزشتہ دنوں عزیر بلوچ کو سیشن کورٹ اور انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے دو، دو مقدمات میں ثبوتوں اور گواہان کی عدم دستیابی کے باعث بری کردیا۔ یکے بعد دیگرے ہوئے ان فیصلوں کے باعث یہ تاثر ابھرا کے عزیر بلوچ کے خلاف کیا صرف مخصوص مقدمات کی سماعت کی جا رہی ہے؟ عوامی حلقوں میں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کیا عزیر بلوچ واقعی بے گناہ ہیں؟
اس حوالے سے انسدادِ دہشت گردی عدالت کے اہلکار کا کہنا تھا کہ ’عزیر بلوچ کے خلاف تمام کیسز کی کارروائی ہی جاری ہے اور بہت سے ایسے کیس بھی زیرِ سماعت ہیں جن میں وہ براہِ راست ملزم نامزد ہیں، ان میں لیاری گینگ وار کے مخالف گروپ کے سربراہ ارشد پپو کا قتل سرفہرست ہے۔‘
حالیہ دنوں میں جن کیسز میں سول اور انسدادِ دہشت گردی عدالت نے عزیر بلوچ کو بری کیا ان میں وہ براہ راست نامزد نہیں تھے۔ 2012-13 میں درج ہوئے ان مقدمات میں عزیر بلوچ پر لوگوں کو اشتعال دلانے اور پولیس پر حملے کے لیے اکسانے کا الزام تھا۔

عزیر بلوچ پاکستان رینجرز سندھ کی تحویل میں ہیں اور انہیں کراچی میں میٹھا رام ہاسٹل میں زیرِ حراست رکھا گیا ہے (فوٹو بشکریہ: پی آر او)

ان تمام مقدمات میں گواہان نے عزیر بلوچ کے خلاف بیان نہیں دیا جس کے بعد انہیں بری کرنے کا حکم دیتے ہوئے عدالت کا کہنا تھا کہ اگر ان کے خلاف کوئی اور مقدمہ نہیں تو انہیں رہا کردیا جائے۔
البتہ رہائی کے امکانات فی الحال اس لیے معدوم ہیں کیونکہ درجنوں مقدمات کی سماعت جاری ہے جس کے لیےعزیر بلوچ کو رینجرز کی تحویل میں سینٹرل جیل لایا جاتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اچانک سے ان تمام مقدمات کی سماعت شروع ہونے اور اس میں بریت کے پیچھے کیا اسباب ہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے عدالتی عملے نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’عزیر بلوچ تین سال تک فوج کی تحویل میں تھے اور ان کے خلاف جاسوسی کے مقدمات کی کارروائی ملٹری کورٹ میں جاری تھی۔ یہی وجہ تھی کہ سیشن کورٹ اور انسدادِ دہشت گردی عدالت میں عزیر بلوچ کے خلاف درجنوں مقدمات کی کاروائی تاخیر کا شکار رہی۔‘
عزیر بلوچ کو 2016 میں گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد اپریل 2017 میں انہیں ملٹری کورٹ کی کارروائی کے لیے فوج کی تحویل میں دیا گیا۔ ملٹری کورٹ نے عزیر بلوچ کو جاسوسی کا مجرم قرار دیتے ہوئے 12 سال قید کی سزا سنائی۔
ملٹری کورٹ کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد عزیر بلوچ کو اپریل 2020 میں واپس رینجرز کی تحویل میں دے دیا جس کے بعد عدالت کو مقدمات کی سماعت کے لیے ان کی دستیابی کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔
اس کے بعد سے عزیر بلوچ کے خلاف سالوں سے تاخیر کا شکار مقدمات کی سماعت کا آغاذ ہوا، اور یہی وجہ ہے کہ اب یکے بعد دیگرے ان مقدمات کے فیصلے ہو رہے ہیں۔

عزیر بلوچ کا شمار بدنام زمانہ ملزمان میں ہوتا ہے البتہ یہ بات غور طلب ہے کہ ابھی تک کسی بھی سول یا انسدادِ دہشت گردی عدالت میں انہیں مجرم ثابت نہیں کی گیا (فوٹو:روئٹرز)

عزیر بلوچ کی ایکدم سے مختلف مقدمات میں بریت کے بعد سوشل میڈیا پر ملے جلے رجحانات دیکھنے کو ملے، بہت سے لوگوں نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ شاید عزیر بلوچ جلد رہا ہونے والے ہیں۔
عزیر بلوچ لیاری گینگ وار کے سرغنہ اور لیاری کی پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ رہے ہیں، ان کے خلاف دہشت گردی اور قتل کے بیسیوں مقدمات ہیں۔ ان کی گرفتاری سیکیورٹی اداروں کی جانب سے کراچی میں بحالی امن کے حوالے سے کیے گئے آپریشن کے نتیجے میں عمل میں آئی تھی۔
عزیر بلوچ کا شمار بدنام زمانہ ملزمان میں ہوتا ہے البتہ یہ بات غور طلب ہے کہ ابھی تک کسی بھی سول یا انسدادِ دہشت گردی عدالت میں انہیں مجرم ثابت نہیں کی گیا۔
ان کے خلاف درج ہوئے تمام مقدمات زیر سماعت ہیں، انہیں ابھی تک صرف فوجی عدالت نے مجرم قرار دے کر 12 سال سزا سنائی ہے۔
اس فیصلے کے بعد عزیر بلوچ کی والدہ نے سندھ ہائی کورٹ میں فوجی عدالت کے دائرہ اختیار کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے جس میں عزیر بلوچ کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمے کی سماعت پر سوال اٹھایا گیا ہے۔
فوج کی جانب سے عدالت میں اس حوالے سے جواب جمع کرواتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ عزیر بلوچ کے خلاف انصاف کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے کاروائی عمل میں لائی گئی تھی۔

شیئر: