ابھی ابھی چند وزرائے کرام اسد عمر کی قیادت میں سکرین پر نمودار ہوئے، بجلی کی قیمت میں قربیاً دو روپے اضافے کا اعلان کیا، کچھ صحافیوں پر خفا ہوئے، کچھ سے مذاق کیا اور ہنستے ہنستے گذشتہ حکومت پر الزامات لگائے اور نیا پاکستان نئی منزلوں کی طرف روانہ ہو گیا۔
یہ پریس کانفرنس عوام کے لیے ایک روح فرسا خبر تھی، ایک بم تھا جو ان کے سر پر پھٹا۔ غریب کے سر کی چادر میں ایک اور چھید ہو گیا، اس کی جھونپڑی کا ایک اور ستون گر گیا۔
مزید پڑھیں
-
عمار مسعود کا کالم: جمہوریت اوراقتدار کی کرسیوں کا کھیلNode ID: 428251
-
جمہوری لیکچر اور لسی کا گلاسNode ID: 446296
-
نواز لیگ کا یو ٹرن اور پی پی پی کی توبہNode ID: 452966
ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ آئے روز اسی طرح کا مژدہ قوم کو سنایا جاتا ہے۔ کبھی پیٹرول بم گرتا ہے، کبھی گیس کی قیمتیں بڑھتی ہیں، کبھی بجلی کی فی یونٹ قیمت میں اضافہ ہوتا ہے، کبھی آٹا مہنگا ہو جاتا ہے، کبھی چینی کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ ہوتا ہے.
لوگ خود کشی پر مجبور ہو رہے ہیں، کاروبار بند ہو رہے ہیں، روزگار ختم ہو رہے ہیں اور کوئی بھی اس عذاب سے عوام کو نجات نہیں دلا رہا، کوئی بھی ان کی حالتِ زار پر رحم نہیں کر رہا، کوئی انھیں ان کا چین سکون اور قرار نہیں لوٹا رہا۔
اپوزیشن اب تک جن موضوعات پر گرج برس رہی ہے وہ اگرچہ بہت ضروری ہیں مگر بات اس سے آگے بھی ہونی چاہیے۔ عوام کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں، عام آدمی کی زندگی عذاب ہوتی جا رہی ہے، ایسے میں لوگ توقع کرتے ہیں کہ ان کے حق میں بات کی جائے، جمہوری سبق پڑھنا بہت ضروری ہے مگر روزمرہ کے مسائل پر بھی بات ہونی چاہیے۔

دنیا بھر میں اپوزیشن اس طرح کی خراب کارکردگی والی حکومت کا ناطقہ بند کر دیتی ہیں، قیمتیوں میں اضافے کی نامنظوری کا اعلان کرتی ہیں، حکومت کے اقدامات کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہیں۔
ان اداروں کے خلاف دھرنا دیتی ہیں، جلوس نکالتی ہیں جو اس مہنگائی کا سبب بنتے ہیں اور اس وقت تک یہ احتجاج جاری رکھتی ہیں جب تک اس طرح کا اضافہ ختم نہ کر دیا جائے۔ عوام ایسے طرز عمل کی وجہ سے اپوزیشن کے ساتھ رہتے ہیں، ان کے گُن گاتے ہیں۔
سارے ملک میں اس وقت احتجاج کی آگ لگی ہوئی ہے، کہیں کلرک تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ لے کر در بدر پھر رہے ہیں، کہیں اساتذہ تنخواہیں بڑھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں، کہیں لیڈی ہیلتھ ورکرز تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر دھرنے پر بیٹھی ہیں، کہیں سٹیل مل کے ملازمین رو رہے ہیں، کہیں پی آئی اے میں ہڑتالیں ہو رہی ہیں، گویا چاروں طرف اس ریاستی جبر کے خلاف آگ لگی ہوئی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ جب یہ احتجاج ہو رہے ہیں تو اپوزیشن کے بڑے لیڈرز ان احتجاجوں کا حصہ نہیں بن رہے، عوام کے دکھوں کے ساتھی نہیں بن رہے، ان احتجاجوں میں شرکت کا مطلب یہ ہے کہ عوام کی داد رسی ہو رہی ہے، ان کی دقتوں کے حل کی تلاش میں مدد ہو رہی ہے، جمہوری درس لوگ پڑھ چکے ہیں۔
ان کو بات سمجھ میں بھی آ چکی ہے لیکن وہ شخص کیا کرے جس کا فوری مسئلہ جمہوری حقوق نہیں دو وقت کی روٹی ہے، بیمار ماں کی دوا ہے، بچوں کی کتابوں کی قیمت ہے، بچوں کی سکول کی فیس ہے۔
آج اگر متحدہ اپوزیشن اعلان کرے کہ ہر وہ ادارہ جو اشیائے ضروریہ کی قیمتیوں میں اضافہ کرے گا اس کے سامنے احتجاج ہو گا۔ اس ادارے کے سامنے جلسہ کریں، جلوس نکالیں، دھرنا دیں، مہنگائی کے خلاف نعرے لگائیں تو پھر دیکھیں لوگ کس طرح اپوزیشن کے ساتھ ملتے ہیں، لوگ کس طرح جوق در جوق متحدہ اپوزیشن کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں۔
اگر کسی ایک بھی ادارے کے سامنے احتجاج سے قیمتوں میں ظالمانہ اضافہ واپس ہو جاتا ہے تو عوام اپنے آپ کو لاوارث نہیں سمجھیں گے۔ انھیں احساس ہو گا کوئی ان کی بات کرنے والا موجود ہے، کوئی ان کو حق دلانے کے لیے آواز بلند کر رہا ہے، کوئی ان کے غم کو اپنا غم سمجھ رہا ہے۔

اس طرح کی ایک مثال ہم نے لاہور میں دیکھی۔ لاہور میں بلوچستان کے طالب علم اپنی فیسوں کی ادائیگی کے لیے پریشان تھے، مریم نواز ان کے پاس پہنچیں، ان کو گلے سے لگایا، ان کے حوالے سے تقریر کی، چینلوں پر بڑی بڑی خبریں چلیں، شام تک بلوچستان حکومت نے ان بچوں کے مسائل حل کر دیے۔ یہ ہوتی ہے اپوزیشن کی طاقت، یہ ہوتی ہے عوامی سیاست۔
اگر اپوزیشن کی بات صرف جمہوری حقوق تک محدود رہے گی تو اس متحدہ سیاسی جماعتوں اور عوام کے درمیان دوری ہو جائے گی جو کہ اپوزیشن کا مطمعِ نظر نہیں ہے۔ اس دوری کو ختم کرنا ہی اپوزیشن کی کامیابی ہوگی۔
متحدہ اپوزیشن کا کام جہد مسلسل کا ہے۔ صرف چند جلسوں سے بات نہیں بنے گی۔ عوام کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے ساتھ مخلص کون ہے اور ان کے لیے مسائل پیدا کرنے والا کون ہے اور ان کے مسائل حل کروانے والا کون ہے، ان کی زندگیاں مشکل بنانے والا کون ہے اور ان کی زندگیوں میں آسانی لانے والا کون ہے۔
