Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

احمد عمرشیخ کی رہائی کے حکم کے خلاف نظرثانی کی اپیل دائر

سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ تھا کہ ڈینیئل پرل کے قتل کا الزام کسی ملزم پر ثابت نہیں ہوسکا۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی اپیل دائر کردی گئی ہے۔ فیصلے کے خلاف درخواست سندھ حکومت نے دائر کی ہے۔
جمعرات کو احمد عمر سعید شیخ اور دیگر ملزمان کی رہائی فیصلے کے فوراً بعد ہی وزارت قانون اور سندھ محکمہ قانون کے درمیان رابطوں کا آغاز ہو گیا تھا جس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کی جائے گی۔
سندھ حکومت کی جانب سے دائر کی گئی نظرثانی کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے عدالتی فیصلے میں حقائق اور قانون نقائص کے سبب نظر ثانی کی جانی چاہئے۔ 
درخواست کے مطابق عدالتی فیصلے میں اہم قانونی نکات اور حقائق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ زیر غور عدالتی فیصلے میں موجود غلطیاں اور کوتاہیوں سے عدالتی ساکھ متاثر ہوئی۔ عدالت کی جانب سے تفصیلی فیصلہ آنے کی صورت میں درخواست گزار ترمیم شدہ درخواست دائر کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔عدالت دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل کو دیگر قانونی نکات پر دلائل کی بھی اجازت دے۔ عدالت اس عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے ملزمان کی رہائی کو روکے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کے ملزم احمد عمر شیخ سمیت دیگر تینوں ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیتے ہوئے سندھ حکومت کی اپیلیں خارج کر دی تھیں۔
قبل ازیں اٹارنی جنرل آفس کے ایک ترجمان نے اس فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’وفاقی اور صوبائی حکومت اس معاملے پر مکمل طور پر رابطے میں ہیں۔ سپریم کورٹ کے گزشتہ روز کے فیصلے پر غور کیا گیا ہے۔ ملزمان کی بریت کا فیصلہ واپس لینے کے لیے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دائر کی جائے گی۔‘
ترجمان نے بتایا کہ ’وفاقی حکومت اس سلسلے میں صوبائی حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کر رہی ہے اور اس سلسلے میں تمام قانونی اقدامات اٹھائے جائیں گے۔‘
دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کی سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اٹارنی جے بلکن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’امریکہ ماضی میں احمد عمر شیخ کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے حوالے سے پاکستان کی حکومت کے اقدامات سے آگاہ ہے اور امید کرتے ہیں پاکستانی قانون کے مطابق انھیں اب بھی حراست میں رکھا جائے گا۔ ہم امید کرتے ہیں پاکستانی حکومت جلد ہی اس فیصلے پر نظرثانی کے لیے قانونی آپشنز کو استعمال میں لائے گی۔‘
امریکی اٹارنی نے کہا کہ ’ہم احمد عمر شیخ کے خلاف امریکی شہریوں کے خلاف کیے گئے جرائم پر امریکہ میں مقدمہ چلانے کے لیے تیار ہیں۔ احمد عمر شیخ کو 2002 میں امریکہ میں ڈینیئل پرل کیس میں سزا سنائی جا چکی ہے۔‘

احمد عمر شیخ کے والد سپریم کورٹ میں فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اپریل 2020 میں سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈِینیئل پرل قتل کیس میں مقدمے میں نامزد احمد عمر شیخ کے علاوہ باقی تینوں ملزمان کو عدم شواہد پر بری کرتے ہوئے رہائی کا حکم دیا تھا۔ فیصلے کے بعد صوبائی حکومت نے اپنے اختیارات کے تحت ملزمان کو رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
سندھ ہائی کورٹ نے کیس کا اٹھارہ سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ تھا کہ ڈینیئل پرل کے قتل کا الزام کسی ملزم پر ثابت نہیں ہوسکا جبکہ ایک ملزم احمد عمر شیخ پر اغوا کا الزام ثابت ہوا ہے۔ جس پر احمد عمر شیخ کی سزائے موت کو سات سال قید میں تبدیل کر دیا گیا اور دیگر تین ملزمان کو بری کیا۔
ٹرائل کورٹ نے برطانوی شہریت رکھنے والے ملزم احمد عمر شیخ کو عدالت نے سزائے موت کا حکم دیا تھا۔ ملزم فہدسلیم ،سید سلمان ثاقب اورشیخ محمد عادل کوعمر قید کی سزادی گئی تھی۔ ملزموں پر امریکی صحافی ڈینیل پرل کے اغوا برائے تاوان اورقتل کا الزام تھا۔
سندھ حکومت نے اس فیصلے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اس کیس میں ڈینیئل پرل کے والدین نے بھی فریق بننے کی استدعا کی تھی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ ان سے ہمدردی ہے تاہم فیصلہ قانون اور شواہد کی روشنی میں ہوگا۔
یاد رہے کہ ملزمان کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 15 جولائی 2002 کو سزائیں سنائی تھیں۔ ڈینیئل پرل کے اغوا کے کچھ عرصے بعد کراچی میں تعینات امریکی سفارتی اہل کاروں کو ایک ویڈیو موصول ہوئی تھی جس میں نامعلوم افراد کو ڈینیئل پرل کا قتل کرتے دکھایا گیا تھا۔ بعد ازاں ملزمان کی نشاندہی کے بعد ان کی لاش ایک قبر سے برآمد کی گئی تھی۔

شیئر: