یکم فروری کا سورج طلوع ہوتے ہی سوشل میڈیا پر مولانا فضل الرحمان اور پی ڈی ایم کے خلاف طنزیہ پوسٹیں، جگت نما سٹیٹس اور مزاحیہ میمز نظر آنا شروع ہوئیں، ان تمام میں ایک نکتہ مشترک تھا کہ پی ڈی ایم نے حکومت کو 31 جنوری کی جو ڈیڈلائن دی ہے، وہ گزر گئی مگر اپوزیشن اپنے انتشار پر قابو پا کر کوئی متفقہ لائحہ عمل نہ بنا سکی۔
اس کے بجائے مولانا فضل الرحمٰن کو لوگوں نے ٹی وی سکرین پر یہ کہتے دیکھا کہ ’ہماری لڑائی اسٹیبلشمنٹ سے نہیں بلکہ حکومت سے ہے۔‘
مولانا فضل الرحمٰن کا یہ بیان اس لیے حیران کن تھا کہ ابھی چند دن پہلے تک وہ اور ان کے اتحادی بار بار یہ کہتے رہے ’ہماری اصل لڑائی حکومت سے نہیں بلکہ انہیں لانے والوں سے ہے۔ یہ حکومت تو کٹھ پُتلی ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں اور ہم اسے لانے والوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔‘ مولانا نے چند ہفتے پہلے ایک اور چونکا دینے والا بیان دیا تھا کہ ’ہم فیصلہ کریں گے ہمارا لانگ مارچ پنڈی کی طرف ہو یا اسلام آباد کی جانب۔‘
مزید پڑھیں
-
’امریکی ٹرمپ چلا گیا اب پاکستانی ٹرمپ کو چلتا کرنا ہے‘Node ID: 519491
-
’سہولت کار کب تک عوام کی امیدوں کے سامنے رکاوٹ بنے رہیں گے‘Node ID: 524071
-
’کبھی کارڈ چھپائیں گے، کبھی کارڈ دکھائیں گے تم ایسے جلتے رہو گے‘Node ID: 529466