فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے دریافت کیا کہ کیا ملک میں میڈیا آزاد ہے؟ (فوٹو: سپریم کورٹ ویب)
سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ’ملک میں میڈیا کو کنٹرول کیا جا رہا ہے، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ملک میں میڈیا آزاد نہیں ہے۔‘
مقامی میڈیا کے مطابق عدالت عظمیٰ میں پنجاب میں بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’ملک کو منظم طریقے کے تحت تباہ کیا جا رہا ہے، حکومت مخالف بات کرنے والے ہر فرد کو غدار اور حکومتی حمایت کرنے والا محب وطن بتایا جارہا ہے۔‘
انہوں نے کہا ’جب میڈیا تباہ ہوتا ہے تو ملک تباہ ہو جاتا ہے۔ صبح لگائے گئے پودے کو کیا شام کو اکھاڑ کر دیکھا جاتا ہے کہ جڑ کتنی مضبوط ہوئی ہے؟‘
جمعرات کو پنجاب میں مقامی حکومتیں تحلیل کرنے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اٹارنی جنرل صاحب ہاں یا ناں میں جواب دیں کہ کیا ملک میں میڈیا آزاد ہے؟‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ہاں یا ناں کے علاوہ کوئی اور آپشن دیں۔‘ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمرہ عدالت میں موجود میڈیا نمائندگان سے پوچھا کہ ’میڈیا والے ہاتھ کھڑا کریں کہ کیا آپ لوگ آزاد ہیں؟‘
کمرہ عدالت میں موجود میڈیا کے کسی نمائندے نے ہاتھ کھڑا نہ کیا۔
بینچ میں موجود جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ ’ججز کو ایسی گفتگو سے اجتناب کرنا چاہیے لیکن کیا کریں ملک میں آئیڈیل صورت حال نہیں ہے، ہم کب تک خاموش رہیں گے؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’مقامی حکومتوں کو ختم کر کے پنجاب حکومت نے آئین کی واضح خلاف ورزی کی، ایسے تو اپنی مرضی کی حکومت آنے تک اپ حکومتوں کو ختم کرتے رہیں گے، جس طرح یہ ملک چل رہا ہے اس پر میں حیران ہوں۔‘
انہوں نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ ’پنجاب کی مقامی حکومتیں کیوں تحلیل کی گئیں؟‘
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ ’پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 مقامی حکومتوں کے قیام کے ایک سال بعد تحلیل کی اجازت دیتا ہے۔‘
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ’یہ ایکٹ نہیں ڈیکلریشن ہے، آپ ہمارے ساتھ گیم نہ کریں۔‘
جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کمشنر نے خود کہا کہ پنجاب کی مقامی حکومتیں غیر قانونی طور پر تحلیل ہوئیں، آپ کا حلف ہے کہ آپ قانون کے مطابق سچ بولیں گے۔‘