Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کے ٹو مہم: علی سدپارہ اور دو ساتھی کوہ پیماؤں کی تلاش

کے ٹو سر کرنے کی مہم میں غیرملکی کوہ پیما بھی شریک ہیں (فوٹو: گیٹی امیجز)
دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سر کرنے کی کوشش کرنے والے پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ اور ان کے دو ساتھیوں کے ساتھ 24 گھنٹے سے زیادہ وقت گزرنے کے بعد بھی تاحال رابطہ ممکن نہیں ہوسکا جبکہ ان کی تلاش کے لیے پاکستانی آرمی کے ہیلی کاپٹروں کی مدد بھی لی گئی ہے۔ 
کے ٹو بیس کیمپ سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق محمد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ژاں پابلو موہر کے ساتھ آخری رابطہ گذشتہ روز ہوا تھا اور اس وقت وہ 8200 میٹر بلندی پر تھے۔  
نیپالی کوہ پیما چھینک داوا شرپا کی جانب سے معلومات دی گئی ہیں کہ ’آرمی ہیلی کاپٹر نے تلاش کے لیے سات ہزار میٹر بلندی تک پرواز کی اور واپس سکردو لوٹ گیا۔ پہاڑ اور بیس کیمپ میں صورتحال خراب تر ہو رہی ہے۔ ہمیں مزید آگے بڑھنا چاہتے تھے لیکن موسم اور تیز ہوائیں اس کی اجازت نہیں دے رہیں۔‘ 
انہوں نے مزید بتایا کہ محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ کیمپ ون میں بحفاظت پہنچ گئے ہیں اور جلد ایڈوانس بیس کیمپ تک پہنچ جائیں ہیں اور ان کے لیے بیس کیمپ سے ایڈوانس بیس کیمپ افرادی مدد بھیجی جا رہی ہے۔ 
اس سے قبل سنیچر کو الپائن کلب کی جانب سے کی جانے ٹویٹس میں بتایا گیا ہے کہ تینوں کوہ پیماؤں کا رابطہ جمعے سے منقطع ہوا ہے۔

ٹویٹس کے مطابق ’ریسکیو آپریشن شروع کر دیا گیا ہے جس کے لیے ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔‘
الپائن کی جانب سے عوام سے دعا کی اپیل بھی کی گئی ہے۔
ساجد علی سدپارہ جمعے کی شام کو واپس سی تھری آ گئے تھے کیونکہ ان کا آکسیجن ریگولیٹر کام نہیں کر رہا تھا تاہم دیگر کوہ پیماؤں نے بلندی کی طرف سفر جاری رکھا تھا۔
ایک اور ٹویٹ میں الپائن کلب کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ ریسکیو آپریشن کے لیے پائلٹ کو ہدایت کی گئی ہے کہ جس حد تک ممکن ہو اونچائی پر پرواز کرے۔ پہاڑ پر درجہ حرارت بہت کم ہے جبکہ 6500 میٹر کے اوپر کے علاقے میں ہوا کی رفتار 35 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہے۔
کلب کے مطابق بیس کیمپ میں آکسیجن بوتلیں، ماسک، ریگولیٹرز اور دوسرا سامان تیار کر کے رکھا گیا ہے۔
اسی طرح محمد علی سدپارہ کے اکاؤنٹ سے ان کے نمائندے راؤ احمد نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ہم ابھی تک علی، جان سنوری اور جے پی موہر سے رابطے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم تمام حفاظتی انتظامات کر لیے گئے ہیں۔ ان کے ساتھ آخری رابطہ رات ایک بجے اور اس کے بعد صبح چار بجے ہوا تھا۔‘
جان سنوری کا تعلق آئس لینڈ سے ہے جبکہ جے پی موپر کا تعلق چلی سے ہے۔ یہ دونوں کوہ پیما عالمی سطح پر کوہ پیمائی میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔
سکردو سے تعلق رکھنے والے محمد علی سدپارہ اپنے بیٹے ساجد علی سدپارہ کے ساتھ بغیر آکسیجن کے کے ٹو سر کرنے کی مہم پر نکلے تھے تاہم ان کے بیٹے جمعے کی شام کو واپس سی تھری لوٹ آئے تھے جبکہ باقی ٹیم نے سفر جاری رکھا تھا۔
دوسری جانب علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ کیمپ تھری سے کیمپ ون پہنچنے کے بعد بیس کیمپ کے لیے روانہ ہوگئے ہیں۔
 
الپائن کلب کی جانب سے کوہ پیماؤں کے لاپتہ ہونے کی ٹویٹس کے بعد صارفین کے تبصروں سے تشویش ظاہر ہوتی ہے اور زیادہ تر صارفین نے ان کی کامیابی اور بحفاظت واپس کی دعا کی ہے۔
گلوکار فخر عالم نے اس حوالے سے محمد علی سدپارہ کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ’ہمارے ہیرو اور ان کے ساتھی کے ٹو کے پہاڑ پر لاپتہ ہو گئے ہیں اور اس وقت ان کی تلاش کا کام جاری ہے۔‘ 
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز زلفی بخاری نے کہا ہے سرچ اور ریسکیو ٹیمیں علی سدپارہ اور ان کے ساتھی کوہ پیماؤں کو تلاش کر رہے ہیں۔
انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا ’موسم کی صورتحال سازگار نہیں اس لیے مشن آساں نہیں ہے۔ ہمیں پاکستان آرمی کی مدد حاصل ہے اور کوہ پیماؤں کو بحفاظت واپس لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔‘

شیئر: