ميانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف جاری مظاہروں پر قابو پانے کے لیے ملک بھر میں اضافی فوج تعينات کر دی ہے۔ جبکہ حکام نے ایک مرتبہ پھر شہریوں کی انٹرنیٹ تک رسائی مکمل معطل کر دی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کی جانب سے مشترکہ بیان میں میانمار کے حکام پر زور دیا ہے کہ شہریوں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچایا جائے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ میانمار کی سکیورٹی فورسز مظاہرین کے خلاف تشدد سے گریز کریں، جو قانونی حکومت کی برطرفی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
میانمار میں ’استحکام یقینی بنانے کے لیے‘ فیس بک بلاکNode ID: 538251
-
میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف لاکھوں افراد کے احتجاجی مظاہرےNode ID: 539131
-
میانمار میں فوجی بغاوت کرنے والے جرنیلوں پر امریکی پابندیاںNode ID: 540061
یاد رہے کہ یکم فروری کو میانمار کی فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور منتخب رہنما آنگ سان سوچی سمیت دوسرے سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا۔ منتخب حکومت کو ہٹا کر فوج کے اقتدار سنبھالنے کے خلاف ملک بھر میں لاکھوں کی تعداد میں افراد سڑکوں پر نکل کر آئے تھے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی میانمار کے حکام پر زور دیا ہے کہ شہریوں کے پرامن اجتماع کے حق کو یقینی بنایا جائے اور مظاہرین کو انتقام کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
سیکرٹری جنرل نے ميانمار کے فوجی حکام سے کہا ہے کہ سوئٹزرلینڈ کی سفارتکار کرسٹین برجنر کو میانمار کے دورے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ تمام زمینی حقائق کا اندازہ لگا سکیں۔
ميانمار میں امریکی سفارتخانے نے اپنے شہریوں کو گھروں میں رہنے اور کرفیو کی خلاف ورزی نہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی مبصر ٹام اینڈریو نے اپنی ٹویٹ میں میانمار کی صورتحال پر کہا ہے کہ فوجی جرنیلوں نے اپنے ملک کے شہریوں کے خلاف ہی اعلان جنگ کر دیا ہے۔
It's as if the generals have declared war on the people of Myanmar: late night raids; mounting arrests; more rights stripped away; another Internet shutdown; military convoys entering communities. These are signs of desperation. Attention generals: You WILL be held accountable.
— UN Special Rapporteur Tom Andrews (@RapporteurUn) February 14, 2021