Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’رشتے داروں نے کہا کہ لڑکیاں کراٹے نہیں سیکھتیں‘

جب کبھی پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا ذکر آتا ہے تو اس کے ساتھ  جڑا پہلا خیال پسماندگی کا ہی آتا ہے۔ لیکن صوبے کی پانچ خواتین ایسی ہیں جنہوں نے اپنے کھیلوں کے خاص ٹیلنٹ کے ذریعے بلوچستان کو ہر جگہ متعارف کرایا اور اس کو کھیلوں کے شعبوں میں عزت دلوائی۔
ان خواتین نے اپنی فتوحات کے ذریعے نہ صرف ذاتی حیثیت میں اعزازات حاصل کیے بلکہ صوبے کی دوسری خواتین کے لیے بھی کھیلوں کے شعبے میں مہارت دکھانے کی راہ ہموار کی۔

شاہدہ عباسی

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی شاہدہ عباسی کراٹے کی کھلاڑی ہیں۔ حال ہی میں نیپال میں ہونے والی ایک انٹرنیشنل چیمپیئن شپ کےانفرادی ’کاتا‘ مقابلے میں انہوں نے گولڈ میڈل حاصل کیا اور ٹیم مقابلوں میں سلور میڈل اپنے نام کیے۔ اس کے علاوہ انہوں نے سری لنکا کے ایک انٹرنیشنل مقابلے میں کانسی کا ایک اور انڈیا میں منعقد مقابلوں میں تین تمغے حاصل کیے۔  
شاہدہ عباسی کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ انعامات جیت کر پاکستان اور بلوچستان کا نام فخر سے بلند کیا ہے۔
شاہدہ عباسی نے کہا کہ ان کے لیے بہترین اعزاز انڈیا میں پاکستان کا پرچم لہرا نا ہے۔
 شاہدہ کا کہنا ہے کہ نیپال میں ہونے والے انٹرنیشنل مقابلوں سے انہوں نے اچھے تجربات حاصل کیے۔

شاہدہ عباسی نے بتایا کہ بلوچستان کی لڑکیوں کے لیے کھیلوں میں حصہ لینا کافی مشکل کام ہے (فوٹو: اردو نیوز)

’نیپال میں منعقدہ مقابلوں سے قبل وہاں ہم پر جملے کسے گئے۔ یہ تاثر دیا گیا کہ پاکستان کی کھلاڑی کچھ نہیں۔ ٹورنامنٹ کا آغاز ہوا تو اعلان نے مجھے چونکا دیا۔ سب سے پہلا مقابلہ میرا تھا۔‘
’نیپال میں نیپالی کھلاڑی کو شکست سے دوچار کیا تو خوشی سے آنسو نکل آئے۔ اپنی اس وقت کی خوشی کا لفظوں میں اظہار نہیں کر سکتی۔‘
شاہدہ عباسی نے بتایا کہ بلوچستان کی لڑکیوں کے لیے کھیلوں میں حصہ لینا کافی مشکل کام ہے اور انہیں خوشی ہے کہ اپنی کارکردگی سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔
’ہمارے معاشرے میں خواتین کے لیے کھیل کھیلنا کافی مشکل ہے اور خصوصاً کراٹے کے میدان کو لوگ اچھا نہیں سمجھتے، مجھے بھی کئی باتیں سننے کو ملیں۔‘
’بیرون ملک سے جیت کر آنے پر وہی لوگ میرے لیے ایئرپورٹ پر گلدستے لائے جو میرے خلاف باتیں کرتے تھے اور جملے کستے تھے۔‘
’وہ لوگ اب میرے والد سے کہتے ہیں کہ اپنی بیٹی سے کہو کہ ہماری بیٹیوں کو بھی تربیت دے اور اپنے جیسا بنائے۔ میرے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ لوگ مجھے ایک مثال کے طور پر لیتے ہیں۔‘

صابرہ گل

صابرہ گل اب تک کراٹے کے قومی اور بین الاقوامی مقابلوں میں سونے کے 14، چاندی کے دو اور کانسی کے 3 تمغے اپنے نام کر چکی ہیں۔
ان کے لیے کھیل کے ابتدائی دن کافی مشکل تھے۔ وہ اب بھی روزانہ کئی گھنٹے پریکٹس کرتی ہیں۔ صبح، دوپہر، شام کلب جا کر ٹریننگ جاری رکھتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ بلوچستان میں خواتین کا کھیلوں میں حصہ لینا ہمیشہ سے ایک مشکل سفر رہا ہے۔ لیکن بین الااقوامی کھلاڑی بننے کے بعد ہر فتح پر اپنا نام سننا ایک ناقابل بیان خوشی ہے۔
صابرہ گل بلوچستان کی دیگر خواتین کو پیغام دیتی ہیں کہ وہ بھی کھیلوں میں حصہ لیں اور جو بھی کھیل ہو اس میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔

مہوش شوکت علی

پاکستان کے صوبے بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی مہوش شوکت علی پاکستان جوڈو فیڈریشن ویمن ونگ کی صدر ہیں۔
انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز سال 2016 میں کیا اور جلد ہی جوڈو فیڈریشن نے انہیں خواتین ونگ کا سربراہ بنا دیا۔

مہوش کا کہنا ہے کہ ’لڑکیوں کا سپورٹس یا کسی بھی فیلڈ میں جانے پر ہمارے معاشرے میں ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔‘ (فوٹو: اردو نیوز)

وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے بلوچستان کے انٹر کالج مقابلوں میں حصہ لیا اور اس ایونٹ نے ان کی زندگی کا رخ بدل دیا۔
اس مقابلے میں عمدہ کارکردگی دکھانے پر جوڈو ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری نور محمد رند نے انہیں کھیل کے انتظامی امور بہتر بنانے کے لیے کردار ادا کرنے کی پیشکش کی۔  
مہوش شوکت علی کے مطابق ’انہوں نے اس چیمپیئن شپ ختم ہونے کے تین ماہ بعد مجھے فون کیا اور کہا کہ ہم نے آپ کے ساتھ میٹنگ کرتی ہے جس میں پاکستان جوڈو ایسوسی ایشن کے صد ڈاکٹر بشیر بابئی بھی ہوں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک کھلاڑی کے لیے جنرل سیکرٹری کی کال آنا اور اس کے بعد آپ کو پتہ چلے کہ آ پ کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اتنا بڑا پلیٹ فارم دیا جا رہا ہے کہ آپ بطور صدر لیڈ کریں تو میں بہت خوش ہوئی۔‘
مہوش شوکت علی نے بتایا کہ ’صدر منتخب ہونے کے بعد میں حسن موسیٰ گرلز کالج گئی، وہاں میں نے ٹیم بنانے کی بات کی تو کئی لڑکیاں ملیں اور میں نے انہیں ٹریننگ دی وہاں مجھے کافی لڑکیاں ایسی ملی جن میں وہ صلاحیت موجود تھی کہ وہ کالج کی سطح سے بہت آگے تک کھیل سکتی ہیں۔‘
مہوش کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو آپ سپورٹس یا کسی بھی فیلڈ میں لے کے جاتے ہیں تو ہمارے معاشرے میں ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ لڑکی کو تو کچن تک محدود ہونا چاہیے۔

مہوش نے جوڈو کے علاوہ ہاکی اور کرکٹ بھی کھیلی ہے (فوٹو: اردو نیوز)

’بلوچستان کے نام پر لوگوں کے ذہن میں گاﺅں کا تصور آتا۔ لیکن میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ بلوچستان کی خواتین میں اتنا ٹیلنٹ ہے کہ وہ ہر سطح پر مقابلے میں پہلے نمبر پر ہوں گی۔‘
مہوش شوکت علی کے مطابق ’لیکن بہت سی باصلاحیت لڑکیاں محض اس لیے پیچھے رہ جاتی ہیں کیوں کہ ان کے گھر والوں کو لوگ کہتے ہیں کہ  آپ کی بچی تو کسی ٹی وی چینل پر دکھائی جا رہی ہے۔ وہ کیوں کھیل رہی ہے۔ اس کی شادی کروا دو۔‘
مہوش نے جوڈو کے علاوہ ہاکی اور کرکٹ بھی کھیلی ہے۔ وہ تقریری مقابلوں میں بھی حصہ لیتی ہیں اور اب سول سروس کے امتحان کی تیاری کر رہی ہیں۔

ملائقہ زاہد

ملائقہ زاہد پاکستان کی قومی سطح کی باکسر ہیں۔ وہ تقریباً پانچ سال سے باکسنگ  کھیل رہی ہیں اور 13 گولڈ میڈلز اور ایک نیشنل گیمز سلور میڈل جیت چکی ہیں۔
وہ بلوچستان ایکسیلنس ایوارڈ اور بلوچستان ایتھلیٹ ایوارڈ کے علاوہ کئی اور اعزازات بھی حاصل کر چکی ہیں۔
انہوں نے حال ہی میں سندھ بلوچستان سیریز میں بھی کامیابی حاصل کی ہے اور کئی مقابلوں میں لڑکوں کے خلاف کھیل چکی ہیں۔
ملائقہ زاہد کہتی ہیں کہ مردانہ معاشرے کی وجہ سے شروع میں انہیں بہت سی مشکلات پیش آئیں جس کے بعد انہیں گھر میں کلب بنانا پڑا۔

ملائقہ زاہد کہتی ہیں کہ مردانہ معاشرے کی وجہ سے شروع میں انہیں بہت سی مشکلات پیش آئیں (اردو نیوز)

’پہلے جب میں کلب جاتی تھی تو وہاں پر لڑکوں کے ساتھ ٹریننگ کرتی تھی تو کھل کر ٹریننگ نہیں کر پاتی تھی، اب میں نے گھر میں اپنا کلب بنایا ہے تو بھرپور پریکٹس کرتی ہوں۔‘

شکریہ تبسم

شکریہ تبسم غلام علی سلطانی مارشل آرٹس کے تاولو، سیمریفا، یوبو چوان، شاولنگ چوان، اوچنگ چوان سیکھ چکی ہیں۔ وہ اب بنگ بی چوان اور ننداو ٹرکس کی تربیت کے ساتھ ساتھ فائٹ کی بھی تربیت حاصل کر رہی ہیں۔
انہوں نے اب تک بلوچستان کی سطح پر ایک گولڈ میڈل حاصل کیا ہے اور کئی مقابلوں میں صوبے کی نمائندگی کر چکی ہیں۔
انہوں نے مارشل آرٹس کی تربیت ذاتی دفاع کے لیے حاصل کی تھی لیکن وہ بتدریج پروفیشنل کھلاڑی بن گئیں۔
شکریہ  کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں لڑکیوں کو کمزور سمجھا جاتا ہے ان سے گھر کے کام کرائے جاتے ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ شادی کے بعد سسرال میں جا کر گھریلو کام کرنے ہیں لیکن عملی زندگی میں ایک لڑکی کو ہر صورت سیلف ڈیفینس آنا چائیے تا کہ وہ حالات کا مقابلہ کر سکتے۔ اور کھیلوں میں بھی ضرور حصہ لینا چاہیے۔

شیئر: