منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کو روکنے کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے جون 2021 تک کی مہلت دے دی ہے۔
جمعرات کو ایف اے ٹی ایف کے صدر ڈاکٹر مارکس پلیئر نے پیرس میں تین روزہ اجلاس کے بعد ورچوئل نیوز کانفرنس میں پاکستان کے حوالے سے اعلان کیا۔
ڈاکٹر مارکس کے مطابق ’پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کو اعلیٰ سطح پر ایکشن پلان پر عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی ہے، اس وقت پاکستان کو بلیک لسٹ میں نہیں ڈالا جاسکتا۔‘
ایف اے ٹی ایف کا تین روزہ اجلاس پیرس میں ہوا جہاں پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے اقدمات کا جائزہ لینے کے بعد اسے گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایف اے ٹی ایف کا کہنا ہے کہ ’پاکستان نے 27 میں سے 24 نکات پر عمل درآمد کرلیا ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
ایف اے ٹی ایف کی کتنی شرائط باقی؟Node ID: 513201
-
ایف اے ٹی ایف اجلاس آج:کیا پاکستان گرے لسٹ سے نکلے گا؟Node ID: 543131
ان کے مطابق ’پاکستان نے ایکشن پلان پر عمل درآمد میں اچھی پیش رفت کی ہے تاہم کچھ سنگین خامیاں ابھی بھی باقی ہیں۔ ان کا خامیوں کا تعلق دہشت گردی کی مالی معاونت سے ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کو باقی تین نکات پر مکمل عمل درآمد کرنا ہوگا۔‘
’پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے گروہوں، تنظیموں اور افراد کے خلاف تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی کے اقدامات میں بہتری لانا ہوگی۔‘
ایف اے ٹی ایف کے صدر کا کہنا ہے کہ ’اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل افراد کو گرفتار کیا گیا اور عدالتوں کی طرف سے انہیں سزائیں بھی سنائی گئی ہیں۔‘
ایف اے ٹی ایف کے صدر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’پاکستان اب جون پلینری میں ڈسکس ہو گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان جیسے ہی بقیہ نکات پر عمل کرے گا، تو پھر دیکھیں گے کہ پاکستان کا عمل درآمد کتنا پائیدار ہے۔‘
گذشتہ سال اکتوبر میں ہونے والے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کی جانب سے 27 میں سے 21 نکات پر عمل درآمد پر مثبت پیش رفت کو سراہتے ہوئے بقیہ چھ نکات پر بھی عمل درآمد کرنے کی ہدایت کی تھی۔
![](/sites/default/files/pictures/February/37246/2021/fatf_fatf_website.jpg)
ایف اے ٹی ایف کی جانب سے دیے گئے چھ نکات میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے دہشت گردی کی مالی معاونت کی بڑی سطح پر چھان بین اور اس کی تفتیش یقینی بنانا، اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گردی کی فہرست میں شامل کیے گئے افراد کی تفتیش اور ان کے خلاف مقدمے چلانا اور ایسے افراد کے خلاف بھی مقدمے چلانا شامل تھا جو اقوام متحدہ کی فہرست میں نامزد افراد کے ماتحت اِسی طرح کی کارروائیوں میں ملوث ہوں۔
اس کے علاوہ پاکستان کو یہ بھی یقینی بنانا ہو گا کہ ’دہشت گردی کی معاونت کے حوالے سے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے اداروں جیسے بینکوں وغیرہ کو انتظامی اور دیوانی سزائیں ملیں اور اس سلسلے میں صوبائی اور وفاقی ادارے تعاون کریں۔‘
پاکستان نے اب تک کون سے اقدامات کیے؟
اکتوبر میں ہونے والے اجلاس کے بعد پاکستان نے ایف اے ٹی ایف پر کی گئی قانون سازی پر عمل درآمد کو تیز کرتے ہوئے موثر اقدامات اٹھائے ہیں جن میں اقوام متحدہ کی دہشت گردی کی فہرست میں شامل افراد کے خلاف مقدمے قائم کرنا اور انہیں سزائیں دینا شامل ہیں۔
![](/sites/default/files/pictures/February/42951/2021/5_4.jpg)
گذشتہ سال نومبر میں لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کالعدم تنظیم جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ محمد سعید کو دہشت گردی کی مالی معانت کے الزام میں 10 سال سے زائد قید کی سزا سناتے ہوئے ان کے تمام اثاثے ضبط کرنے کا حکم دیا تھا۔
رواں برس جنوری میں لاہور ہی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے اہم رہنما ذکی الرحمن لکھوی کو بیرون ملک سے فنڈ حاصل کرنے اور دہشت گردی میں مالی معاونت کرنے کے الزام میں 15 سال سے زائد قید کی سزا سنائی تھی۔
اسی طرح کالعدم تنظیم کی معاونت کرنے والے افراد کے خلاف بھی مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
پاکستان کی جانب سے ایف ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ’پاکستان نے 27 نکات کے ایکشن پلان میں سے 21 نکات پر مکمل طور پر عمل درآمد کر لیا ہے جسے ایف اے ٹی ایف کے ممبران کی جانب سے بھی سراہا گیا ہے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/February/37246/2021/money_laundering_reuters_2.jpg)
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ’ہم سمجھتے ہیں کہ بقیہ چھ نکات پر بھی کافی حد تک کام ہوچکا ہے اور کچھ حصوں پر پیش رفت جاری ہے۔ امید ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کو سراہا جائے گا۔
کیا پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے کے امکانات موجود ہیں؟
سابق چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ ہارون شریف نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کی جانب سے ایسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں جس پر ہم اپنا موقف درست انداز میں پیش کر سکتے ہیں لیکن اس بار پاکستان کی جانب سے ایسے سفارتکاری نظر نہیں آئی جو ہونی چاہیے تھی۔‘
ہارون شریف کے مطابق اس معاملے پر پاکستان نے قانون سازی بھی کی ہے اور کئی ایسے اقدامات بھی اٹھائے ہیں جو کہ کافی مثبت پیش رفت ہے۔ لیکن ’اب یہ معاملہ صرف قانون سازی کی حد تک نہیں رہا بلکہ اس پر سفارتی محاذ پر بھی لابنگ کرنے کی ضرورت تھی جو کہ اس بار نظر نہیں آ رہی۔‘
![](/sites/default/files/pictures/February/42951/2021/7_3.jpg)