Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلا وجہ کا شور، سو کا نوٹ کدھر چلا گیا؟

یہ ٹیکس حکومت کی آمدنی کا اہم حصہ بنتا چلا گیا اور اپنی ہی آمدنی کون کم کرنا چاہتا ہے؟ (تصویر: اے ایف پی)
آجکل سو روپے میں ملتا ہی کیا ہے؟ یہ سوال تو آپنے ان لوگوں سے اکثر سنا ہوگا جو ہمیشہ مہنگائی کی مار کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔
عموماً یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس وقت زیادہ اور کام کم ہو، کام زیادہ ہوتا تو آمدنی بھی زیادہ ہوتی اور پھر کون پروا کرتا ہے کہ پیٹرول سو روپے لیٹر بک رہا ہے یا نوے؟
یہ لوگ آج کل پیٹرول کی تقریباً روزانہ بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان ہیں، اس لیے آلو ٹماٹر پیاز کا ذکر انہوں نے بند کر رکھا ہے۔
اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ امیر تو ان باتوں پر اپنا وقت برباد کرتے نہیں ہیں، جتنا ٹائم شکایت کرنے میں ضائع ہوگا اتنی دیر میں وہ ایک ٹنکی پیٹرول خریدنے لائق پیسے کما لیتے ہیں۔
اگر یقین نہ ہو تو کسی بھی ہسپتال میں جاکر دیکھ لیجیے۔ وہاں ڈاکٹر آپ کی نبض پر دو سے تین منٹ ہاتھ رکھنے کے عوض ڈیڑھ سے دو ہزار روپے وصول لیتے ہیں۔
کسی اوسط سے اوسط ڈاکٹر کا میٹر بھی دلی کے آٹو رکشہ کے بدنام زمانہ میٹروں سے تیز چلتا ہے۔ یہ خبر ہی نہیں ہوتی کہ سو کا نوٹ کدھر چلا گیا۔
لیکن جیسا کسی نے کہا کہ لوگ بلا وجہ شور مچا رہے ہیں، میں پہلے بھی سو روپے کا تیل ڈلواتا تھا اور اب سو کا ہی ڈلواتا ہوں۔

یہ جنرل نالج کا سوال ہے لیکن کیا آپکو معلوم ہے کہ یہ مٹر آلو یا گوبھی اگاتا کون ہے؟  (تصویر: اے ایف پی)

زیادہ پریشان وہ لوگ ہی ہیں جن کے پاس کام کم ہے۔ عام بول چال کی زبان میں کچھ لوگ انہیں غریب بھی کہتے ہیں ورنہ سچ یہ ہے کہ یہ لوگ کاہل ہوتے ہیں۔ اگر نہ ہوتے تو اپنے کام میں مصروف ہوتے اور پھر حکومت کو یہ روز کی چک چک نہیں سننی پڑتی کہ پیٹرول اور ڈیزل کتنے مہنگے ہوگئے ہیں۔
میرے ذہن میں یہ سوال چبھ رہا تھا کہ آخر ان لوگوں کا مسئلہ کیا ہے؟ ان کے پاس کون سی ایسی بڑی گاڑیاں ہیں کہ روز بیس تیس لیٹر پیٹرول کی ضرورت پڑتی ہوگی؟ اور اگر پیٹرول کی قیمت واقعی اتنا بڑا مسئلہ ہے تو بجلی سے چلنے والی گاڑیاں کیوں نہیں خریدتے؟ حکومت نےبجلی سے چلنے والی گاڑیوں پر بھاری سبسڈی کی سکیم جو چلا رکھی ہے، اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے؟
لیکن ان لوگوں میں اتنی سمجھ کہاں کہ پندرہ بیس لاکھ روپے جوڑ کر ایک الیکٹرک کار خرید لیں؟ یہ بس سو کے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انہیں بس یہ ہی فکر ہے کہ تیل کی قمتیں بڑھنے سے مہنگائی بڑھتی ہے جو آجکل کے مشکل حالات میں اچھی خبر نہیں ہے۔
لیکن یہ سوال ابھی باقی ہے کہ یہ لوگ آلو پیاز ٹماٹر کی قیمتوں کےبارے میں شور کیوں نہیں مچا رہے؟ اور دونوں کے درمیان موازنہ کیوں نہیں کرتے؟ اگر سو روپے میں اور کچھ نہیں ملتا تو تیل ہی کیوں کنٹری بھر کر خریدنا چاہتے ہیں؟ اس کے دو ممکنہ جواب ہو سکتے ہیں۔ یا تو ان کے پاس سو ہی روپے ہیں اور وہ دونوں میں سے ایک ہی چیز خرید سکتے ہیں یا انہیں معملوم ہوگیا ہے کہ دنیا کے بازاروں میں تیل اب بھی بہت سستا بک رہا ہے لیکن پیٹرول پمپ پر پہنچتےپہنچتے بہت مہنگا ہو جاتا ہے۔
انڈیا میں پیٹرول کی قیمت تاریخ میں پہلی مرتبہ سو روپے لیٹر سے تجاوز کر گئی ہے۔
ایسا اسوقت بھی نہیں ہوا تھا جب تیل ڈیڑھ سو ڈالر فی بیرل سے اوپر بک رہا تھا۔ اب عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمت تقریباً ساٹھ ڈالر فی بیرل ہے اور انڈیا میں صفائی کے بعد یہ تقریباً بتیس روپے لیٹر بیٹھتا ہے۔ باقی تقریباً دو تہائی وفاقی اور ریاستی حکومتیں ٹیکس کے نام پر وصول کرتی ہیں۔

کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت کسانوں کے بارے میں بھی سوچے کیونکہ ان کی لاگت بڑھتی جارہی ہے اور آمدنی گھٹ رہی ہے۔  (تصویر: پکسا بے)

لیکن حکومت کو ٹیکس کم کرنے میں مسئلہ کیا ہے؟ اب کئی برسوں سے ہندوستانی معیشت بحران کا شکار ہے، اس لیے عالمی منڈیوں میں جب بھی تیل کی قیمت گری، حکومت نے پیسے کم کرنے کے بجائے اسی تناسب سے ٹیکس بڑھا دیا۔ یہ ٹیکس حکومت کی آمدنی کا اہم حصہ بنتا چلا گیا اور اپنی ہی آمدنی کون کم کرنا چاہتا ہے؟
اور ہاں جو لوگ یہ جھوٹ پھیلاتے ہیں کہ سو روپے میں کچھ نہیں ملتا، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم بھی بازار جاتے ہیں اور ہماری آنکھوں میں دھول جھونکنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ ڈان کو گرفتار کرنا یا تیل پر ٹیکسز کم کرنا۔
مثال کے طور پر آپ سو روپے میں دس بارہ کلو آلو یا گوبھی آرام سے خرید سکتے ہیں۔ یا چھ سات کلو تازہ مٹر۔ یا اتنے کینو کے آپ جوس نکالتے نکالتے تھک جائیں گے لیکن کینو ختم نہیں ہوں گے۔ چلیے مانا کہ آپ تکھیں گے نہیں اور کینو ختم ہوجائیں گے لیکن کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ بہت ساری چیزیں کافی سستی بک رہی ہیں۔
مطلب سو روپے میں کافی کچھ مل جاتا ہے، اور ملک کی آبادی کے ایک قابل لحاظ حصے کے لیے یہ اب بھی بڑی رقم ہے۔
یہ جنرل نالج کا سوال ہے لیکن کیا آپکو معلوم ہے کہ یہ مٹر آلو یا گوبھی اگاتا کون ہے؟
اور اگر دلی نوئئڈا جیسے بڑے شہروں میں گوبھی چھ سات روپے کلو بک رہی ہے تو اسے اگانے والے کسان کو کیا ملا ہوگا؟ کسان نے اپنی فصل منڈی میں بیچی ہوگی، ٹرانسپورٹ پر پیسے خرچ کیے ہوں گے، منڈی میں آڑھتی نے کمیشن کمایا ہوگا پھر خوردہ بیوپاریوں نے اپنا منافع اور لاگت نکالی ہوگی۔۔۔مطلب کسان کو تقریباً کچھ نہیں ملا ہوگا۔

حکومت کسانوں کے بارے میں بھی سوچے کیونکہ ان لی لاگت بڑھتی جارہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

شاید اسی لیے وہ کاہل بن کر دلی کی سرحدوں پر بیٹھے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت کسانوں کے بارے میں بھی سوچے کیونکہ ان لی لاگت بڑھتی جارہی ہے اور آمدنی گھٹ رہی ہے اور ڈیزل کی ریکارڈ قیمتیں اس کی ایک مثال ہیں۔
کسانوں کی ناراضگی اور ان کے مطالبات کے بارے میں تو آپنے پہلے بھی اس کالم میں کافی کچھ پڑھا ہوگا، اس لیے پرانی باتیں دہرا کر آپکو بور نہیں کریں گے لیکن بات کہیں تو ختم کرنی ہے تو کیوں نہ سچن ٹیندولکر پر کریں؟
سچن ان نامور شخصیات میں شامل تھے جنہوں نے کسانوں اور حکومت کے درمیان جاری رسہ کشی میں حکومت کے حق میں ٹویٹ کیا تھا۔ ان کے بیٹے ارجن ٹیندولکر کو انڈین پریمئر لیگ کی ٹیم ممبئی انڈینز نے بیس لاکھ روپے میں خریدا ہے۔
یہ ان کا “بیس” (کم سے کم) پرائس تھا۔ کسی دوسری ٹیم نے انہیں خریدنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی لیکن ممبئی انڈینز میں سچن کی بات کون ٹال سکتا ہے۔
بس اسی بات پر سوشل میڈیا میں لوگ طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں۔ ایک شخص کا یہ کمینٹ بہت وائرل ہو رہا ہے کہ سچن کو اب تو کسانوں کا درد سمجھ میں آگیا ہوگا، وہ بھی اپنے لیے ”بیس” پرائس کا ہی مطالبہ کر رہے ہیں اور بس یہ چاہتے ہیں کہ جب کوئی اور ان کا ہاتھ تھامنے کے لیے تیار نہ ہو تو حکومت آگے آئے، بالکل ویسے جیسے ممبئی انڈینز کی ٹیم آگے آئی ہے۔
آخر مشکل وقت میں اپنے ہی کام آتے ہیں۔

شیئر: