دہلی کا اردو بازار جہاں اب کتابیں نہیں صرف ’چٹخارہ‘ ہے
دہلی کا اردو بازار جہاں اب کتابیں نہیں صرف ’چٹخارہ‘ ہے
اتوار 28 فروری 2021 6:36
سہیل اختر قاسمی، دہلی
دہلی کی مشہور تاریخی شاہی جامع مسجد کے شمالی درواز کے سامنے ’اردو بازار‘ واقع ہے جہاں کبھی شاعر، ادیب، نقاد اور ادب میں دلچسپی رکھنے والوں کی بھیڑ نظر آتی تھی، جہاں قطار سے اردو کتابوں کے مکتبے، سٹالز اور اشاعتی اداروں کے دفاتر ہوا کرتے تھے۔ اب یہاں کھانوں کا بازار سجتا ہے۔
دور دور سے خوش ذائقہ شوقین مغلیہ کھانوں کی تلاش میں یہاں پہنچتے ہیں۔ سیخ کباب کے سٹالز کے سامنے سیاحوں اور کھانے کے شوقین افراد کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔
بازار سے ملحق حویلیوں اور آشیانوں کے پرانے مکین بتاتے ہیں کہ کچھ ہی برسوں میں اردو بازار کا حلیہ بدل گیا۔
پہلے اس علاقے میں ایک الگ طرح کی رونق ہوتی تھی، محفلیں سجنا اور مکتبوں کے سامنے کرسیاں لگا کر مشاعرے منعقد کرنے کی روایت تھی۔ بڑے بڑے شعرا یہاں پہنچتے، ادیب جمگھٹا لگاتے اور نقاد تاک میں رہتے، نہ شور و غل اور نہ بے ہنگم بھیڑ۔ بدلتے وقت کے ساتھ بازار کا رخ بدل گیا۔
صبح سے دیر رات تک بھیڑ ہی بھیڑ، ہوٹلوں میں آنکھوں کو خیرہ اور زبان میں آسودگی بھرنے والی رونق، جس کی روشنی میں یہاں کی سب سے قدیم تہذیبی شناخت مدھم ہو کر رہ گئی ہے۔
عبدالمغنی، جن کا بچپن اردو بازار کی کوچہ گردی میں گزرا اور اب وہ 75 برس کے ہوگئے ہیں، اردو بازار کی تصویر کشی کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اردو بازار جامع مسجد کے شمالی دروازے کی چوڑی سڑک کو کہا جاتا ہے، اس بازار کے تجارتی امتیازات خالص تہذیبی اور ادبی ہوا کرتے تھے، اب یہ عام بازار جیسا بن چکا ہے۔
عبدالمغنی نے بتایا کہ ’پہلے لوگ یہاں کتابیں خریدنے اور دیکھنے آتے تھے۔ بسا اوقات مقامی شعرا بھی آتے تھے اور دوسرے شہروں سے شعرا بھی یہاں جمع ہوتے تھے۔ اب یہ سب ختم ہو چکا ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اردو بازار کو بدلتے ہوئے اور اس کی تاریخی حیثیت ختم ہوتے ہوئے دیکھا۔‘
اردو بازار میں واقع مکتبہ جامعہ میں برسوں سے کام کرنے والے امیر خسرو کے مطابق وہ 1971 سے اردو بازار میں کام کر رہے ہیں، انہیں یہاں مکتبہ جامعہ میں ملازمت کرتے ہوئے 38 برس ہوچکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’پہلے جو اردو بازار تھا، اس کی رونق اب وقت کے ساتھ کافی تبدیل ہو رہی ہے۔‘
’میرے سامنے اردو کے 13 یا 15 ادارے ختم ہوگئے۔ جس میں ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے مسلم احمد نظامی کا کتب خانہ نذیریہ تھا، اسی بازار میں کتب خانہ رشیدیہ، دینی بک ڈپو، علمی کتب خانہ اور دیگر بہت سارے ادارے تھے جو یا تو ختم ہو گئے یا ان کی جگہ بدل گئی۔
’اردو بازار اب بس برائے نام ہے، چند دوکانیں رہ گئی ہیں۔ اسی پر سارا دارومدار ہے۔‘
کینیڈا میں دس برس گزار کر وطن لوٹنے والے محمد کمال کا کہنا ہے کہ پرانی دہلی کی یادوں نے انہیں وطن واپس آنے پر مجبور کیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ یہاں ایک زمانے میں لوگ آتے تھے، ادبی محفلیں لگتی تھیں، مولوی سمیع اللہ تھے، جن کی ایک بنچ کتب خانہ عزیزیہ کے باہر لگی ہوتی تھی، بڑے بڑے شعرا جیسے جوش ملیح آبادی اور مجاز اور ان جیسے بڑے پائے کے شعرا یہاں آکر بیٹھتے تھے، ادبی گفتگو ہوتی تھی، مشاعرے ہوتے تھے، لیکن اب یہاں پر زیادہ تر مچھلی سیخ کباب اور چکن کا دور دور ہے، کتابوں اور ادب کی بجائے اب یہاں صرف چٹخارے ہیں۔
دلی کالج سے وابستہ رہنے والے عبدالعزیز نے بتایا کہ ’اس بازار میں اردو کتب خانے ہی اس بازار کی پہچان تھے جو بند ہو گئے۔ مجھے یاد ہے آزاد کتاب گھر کے بارے میں، ان کے مالک خالد صاحب ہوا کرتے تھے، کافی مشہور آدمی تھے۔ ان کے انتقال کے بعد مکتبہ بند ہوگیا۔‘
’اسی بازار سے متصل ایک گلی سے انجمن ترقی پسند مصنفین کا ممتاز رسالہ ماہنامہ شاہراہ نکلتا تھا، یہاں انجمن کا مکتبہ بھی تھا، برسوں پرکاش پنڈت، علی سردار جعفری، خلیق انجم جاں نثار اختر، کیفی اعظمی اور عتیق صدیقی آتے رہے۔‘
1980 کی دہائی میں مکتبہ شاہراہ میں آتشزدگی ہوئی، جس سے بھاری نقصان ہوا اور نقصان کا ازالہ نہ ہونے کی وجہ سے بند ہوگیا۔ یہ ایک تاریخی مکتبہ تھا جو اب اردو بازار سے معدوم ہوگیا۔
عبدالعزیز نے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ اسی علاقہ میں دارالمصنفین تھا، ماہنامہ برہان کا دفتر تھا، یہ سب ایک بڑی حویلی میں ہوا کرتا تھا، مفتی عتیق الرحمان عثمانی نے اس ادارہ کو قائم کیا اور ان کی اولادوں نے اس حویلی کو بیچ دیا، جس کا حالیہ مالک مرغی کا ایک بیوپاری ہے۔ اسی کے آس پاس لاجپت رائے اینڈ سنز جو کہ بہت بڑا اردو کا اشاعتی ادارہ تھا، اب وہاں مرغی مچھلی بکتی ہے۔
پرانے مکین بتاتے ہیں کہ اردو بازار دراصل مغلیہ عہد کی یادگار ہے، اس کو 1857 میں تباہ کر دیا گیا، یہ دوبارہ سے جامع مسجد کے شمالی دروازے کے سامنے وجود میں آیا۔
بڑے بڑے مکتبے اور اشاعتی ادارے تھے۔ جن کی وجہ سے اردو بازار کا ماحول خالص علمی اور ادبی ہوتا تھا۔ یہاں آمد ورفت رکھنے والوں کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، وقت گزرتے گزرتے کب یہ بازار کھانے کے بازار میں بدل گیا، پتہ ہی نہیں چلا۔
اب اس بازار میں نوع در نوع کی مغلیہ ڈشز کے ہوٹلز ہیں۔ اسی بازار سے متصل مشہور کریم ہوٹل ہے۔ اس کے علاوہ درجنوں ہوٹل بن چکے ہیں، جہاں کھانے کے شوقینوں کا تانتا لگا رہتا ہے۔