کشمیر میں ’مقناطیسی‘ بموں کی موجودگی نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
کشمیر میں ’مقناطیسی‘ بموں کی موجودگی نے خطرے کی گھنٹی بجا دی
اتوار 28 فروری 2021 16:01
گزشتہ چند ماہ سے وادی کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کے چھاپوں میں مقناطیسی بم برآمد ہو رہے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں مقناطیسی بموں کی موجودگی نے سکیورٹی فورسز کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے جو افغانستان میں حالیہ بم دھماکوں سے تباہی کی وجہ بننے ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ چند ماہ سے سکیورٹی فورسز کے چھاپوں میں مقناطیسی بم برآمد ہو رہے ہیں جو کسی بھی گاڑی پر چپکانے کے بعد ریمورٹ کنٹرول کے ذریعے اڑائے جا سکتے ہیں۔
تین انڈین سکیورٹی اہلکاروں نے وادی کشمیر میں مقناطیسی بموں کی موجودگی کی تصدیق کی ہے جنہیں سٹکی یعنی چپکنے والے بم بھی کہا جاتا ہے۔
وادى کشمیر کے پولیس چیف وجے کمار کا کہنا ہے کہ یہ چھوٹے قسم کے خود ساختہ بم ہیں لیکن انتہائی طاقت ور ہیں۔
انہوں نے مقناطیسی بموں کی وادی کشمیر میں موجودگی کے حوالے سے کہا کہ ’یہ حالیہ سکیورٹی صورتحال پر یقیناً اثرانداز ہوں گے، کیونکہ یہاں پر سکیورٹی فورسز اور پولیس کی گاڑیوں کی آمدورفت اور تعداد بہت زیادہ ہے۔‘
اگست 2019 میں نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے ریاست کی آئینی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد وادی میں اضافی سکیورٹی فورسز تعینات کر دی گئی تھیں۔
رواں ماہ فروری میں سکیورٹی فورسز کے چھاپے میں 15 مقناطیسی بم برآمد ہوئے تھے۔
گزشتہ چند ماہ سے وادی کشمیر میں مقناطیسی بموں کی موجودگی پر افغان طالبان کے ملوث ہونے پر بھی شکوک و شہبات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
افغانستان میں حالیہ مہینوں میں مقناطیسی بموں کے استعمال سے سکیورٹی فورسز، وکلا، حکومتی اہلکار، سماجی کارکنان اور صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
انڈین سیکیورٹی اہلکاروں کے مطابق وادی کشمیر میں ملنے والے مقناطیسی بموں میں سے کوئی بھی یہاں پر تیار نہیں کیا گیا تھا بلکہ پاکستان سے سمگل کیے گئے تھے۔
سکیورٹی اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ یہ مقناطیسی بم ڈرون یا سرنگوں کے ذریعے وادی کشمیر میں لائے گئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مقناطیسی بم آسانی سے گاڑیوں کے ساتھ چپکائے جا سکتے ہیں جن کے استعمال سے ٹارگٹ کلنگز یا فوجی قافلوں پر حملہ کرنا آسان ہو جائے گا۔
وادى کشمیر کے پولیس چیف وجے کمار کے مطابق مقناطیسی بموں کی موجودگی سے پیدا ہونے والے اس نئے خطرے سے نمٹنے کے لیے سکیورٹی پروٹوکول تبدیل کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ احتیاطی تدابیر میں فوجی اور سرکاری گاڑیوں میں زیادہ فاصلہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ فوجی گاڑیوں پر کیمرے لگانے کے علاوہ فوجی قافلوں کو ڈرون سے مانیٹر کیا جا رہا ہے۔