Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ایرانی سکولوں کا نفرت انگیز نصاب باعث تشویش کیوں ہونا چاہیے؟‘

’ٹیکسٹ بکس بچوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالتی ہیں کہ انہوں نے تمام زندگی حالت جنگ میں رہنا ہے۔‘ (فوٹو: عرب نیوز)
ایران دنیا میں دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی سب سے بڑی ریاست ہے اور بدقسمتی سے اس کے تعلیمی نصاب کی بھی یہی حالت ہے۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے ڈیوڈ اینڈریو وینبرگ کے مضمون میں لکھا ہے کہ ’ایران میں سرکاری سکولوں کے ٹیچرز آجکل ریاست کی طرف سے فراہم کی گئی ٹیکسٹ بکس استعمال کر رہے ہیں تاکہ نوجوانوں کے ذہن بدلے جا سکیں اور دہشت گردی کے ذریعے عالمی انقلاب کو برآمد کیا جا سکے۔‘
لہذا سکولوں میں پڑھائی جانے والی کتابوں کا نصاب دنیا بھر کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔

 

ایرانی حکومت کی موجودہ ٹیکسٹ بکس بچوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالتی ہیں کہ انہوں نے تمام زندگی حالت جنگ میں رہنا ہے۔
یہ کتابیں بچوں کو سکھاتی ہیں کہ بندوق کو کیسے کھول کر بند کرنا ہے، فوجی کارروائی کیسے کرنی ہے اور سائبر وار فیئر کی اہمیت کیا ہے۔
یہ کتابیں بچوں کو ان نوجوانوں کے بارے میں بتاتی ہیں جنہوں نے ایرانی انقلاب کے فروغ کے لیے اپنی جانیں قربان کیں۔
اسی طرح یہ ٹیکسٹ بکس بچوں کو ایک 20 برس کے نوجوان محمد رضا دیہگان کو ایک ’ماڈل کی طرح دکھاتی ہیں جس نے مزاروں کی حفاظت کی۔‘

اس نوجوان کو رضاکار کے طور پر لڑائی کے لیے شام بھیجا گیا اور وہ چند ہی ہفتوں ہلاک ہو گیا۔ وہ ایران کی پیراملٹری فورس ’باسجی‘ کا رکن تھا۔ یہ کتابیں بتاتی ہیں کہ اس تنظیم کے ممبران ہر وقت ’شہادت‘ کی خواہش کرتے ہیں۔
رواں برس ایرانی حکومت نے نصاب میں قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے بارے میں پیراگراف شامل کیے ہیں۔ مثال کے طور پر ملٹری سٹڈیز کی کتاب کے سرورق پر قاسم سلیمانی اور دیگر کمانڈروں کی تصاویر ہیں اور اس کا عنوان ہے ’ثابت قدمی اور مزاحمت کی علامت۔‘

ایران کے اس نصاب سے سب سے زیادہ اس کے عرب ہمسائے متاثر ہوں گے۔ مثال کے طور پر گیارہویں جماعت کی تاریخ کی کتاب میں ’بحرین کی بادشاہت کا تختہ الٹنے‘ کے بارے میں لکھا ہے۔
اس کے علاوہ نصاب میں مصر، لیبیا، تیونس اور یمن ’کٹھ پتلی‘ حکومتوں کے خلاف مزاحمت کے بارے میں لکھا ہے۔

امریکہ کو ایرانی سکولوں کے نصاب میں ایک ولن کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ امریکہ کو ’سب سے بڑا شیطان‘ کہا گیا ہے۔
اسرائیل کے بارے میں کتابوں میں چھپی تصاویر میں ’اسرائیل کو موت‘ اور ’اسرائیل کا خاتمہ‘ جیسے نعرے شائع کیے گئے ہیں۔

ڈیوڈ اینڈریو وینبرگ نے لکھا ہے کہ دنیا کو اس سے نمٹنے کے لیے برداشت کی تعلیم دینی ہو گی اور ایسی تمام چیزوں کو ہٹانا ہوگا جن کا سہارا لیتے ہوئے کوئی نفرت کو فروغ دے سکے، بد اعتمادی پیدا کر سکے یا انتہا پسندی پروان چڑھ سکے۔

شیئر: