کرپٹو کرنسی کے حوالے سے عالمی ممالک کی متضاد رائے ہے اور سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی اس کے لین دین کو غیر قانونی قرار دیا ہے، البتہ پھر بھی دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بِٹ کوائن اور دیگر کرنسیوں کی مائننگ کی جارہی ہے۔
اس کے نتیجے میں کمپیوٹر پارٹس بالخصوص گرافِکس کارڈز کی قیمت دگنی ہوگئی ہے اور یہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔
اگر آپ ایک اچھا کمپیوٹر خریدنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس میں ایڈ-ان-بورڈ (اے آئی بی) کارڈ لگا ہو، تو قوی امکان ہے کہ آپ کو مایوسی ہوگی اور دکاندار یہی بتائے گا کہ یہ کارڈز دستیاب نہیں۔ اور اگر کسی کے پاس مہیا ہو بھی جائیں تو ان کی قیمت پچھلے سال کے مقابلے میں دگنی ہو چکی ہے۔
مزید پڑھیں
-
ڈیجیٹل کرنسی یا بِٹ کوائن کی دوڑ، ’پاکستان کو ابھی وقت درکار ہے‘Node ID: 531991
-
مہنگے بِٹ کوائنز والی ہارڈ ڈرائیو کوڑے میںNode ID: 533676
-
بِٹ کوائن کرنسی کی قیمت پہلی بار 50 ہزار ڈالر تک پہنچ گئیNode ID: 541661
کراچی کی مشہور کمپیوٹر مارکیٹ ناز پلازہ میں دکاندار عارف انصار نے اردو نیوز کو بتایا کہ 2017 کے بعد سے کرپٹو کرنسی کی مائننگ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس پروسیس میں اے آئی بی کارڈز استعمال ہوتے ہیں جنہیں حرف عام میں گرافِکس کارڈ کہا جاتا ہے۔
ان کارڈز کی ڈیمانڈ اس قدر بڑھ چکی ہے کہ یہ مارکیٹ میں نایاب ہوچکے ہیں، ان کے پاس بھی محض چند ہی کارڈز موجود ہیں، اور وہ بھی انہیں دگنی قیمت پر مہیا ہوئے۔
کرپٹو کرنسی ایک ڈیجیٹل کرنسی ہے جسے بلاک چین ٹیکنالوجی سے سپورٹ کیا جاتا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا کوئی سینٹرل ریزرو نہیں ہوتا بلکہ کوئی بھی کمپیوٹر سرورز کے ذریعے اس کرنسی کی مائننگ کرسکتا ہے۔ اس کے لیے اعلیٰ درجے کے کمپیوٹرز جن میں آگ آئی بی کارڈز لگے ہوں، وہ درکار ہوتے ہیں۔
عارف نے بتایا کہ جو کارڈز وہ پہلے ایک لاکھ روپے میں فروخت کرتے تھے، اب ان کی مالیت پونے دو لاکھ سے زائد ہوچکی ہے لیکن پھر بھی دستیاب نہیں، جبکہ کرپٹو مائننگ سے تعلق رکھنے والے افراد انہیں ڈھائی لاکھ روپے تک ایڈوانس پیمنٹ کر رہے ہیں کہ وہ یہ کارڈز جب بھی دستیاب ہوں ان کے لیے سنبھال کر رکھیں۔
کمپیوٹر پارٹس کے امپورٹر عدنان الحق نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کرپٹو کرنسی کی مائننگ میں جو کارڈز استعمال ہوتے ہیں وہ وہی ہیں جو گیمنگ یا ایڈیٹنگ کے لیے بنے کمپیوٹر میں استعمال ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پچھلے برسوں میں آن لائن گیمنگ ٹرینڈ میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ اب گرافِکس کارڈ کی قیمتیں پہلے کے مقابلے میں زیادہ ہوئی ہیں، لیکن مائننگ کی وجہ سے کارڈز عالمی مارکیٹ میں نایاب ہوگئے ہیں، اور اگر کہیں مل بھی رہے تو وہ بھی استعمال شدہ جو مائننگ میں استعمال ہوچکے ہوں۔‘

عدنان کا کہنا تھا کہ ’جو بھی نئے اے آئی بی کارڈز لانچ ہو رہے ہیں وہ مائننگ کرنے والے افراد پیشگی اضافی قیمت دے کر خرید رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کام سے منسلک لوگوں کو یا تو کارڈز مل نہیں رہے یا مل بھی رہے تو استعمال شدہ اور نہایت مہنگے داموں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ڈیلرز پہلے کریڈٹ پر مال اٹھاتے تھے تاہم اب تو حال یہ ہے کہ پیشگی ادائیگی ہو رہی ہے اور پھر بھی کارڈز دستیاب نہیں۔
کارڈز اور دیگر پارٹس کی ڈیمانڈ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران بڑھی کیوں کہ بہت سے لوگوں نے اپنا کام گھر پر شفٹ کیا جس کے لیے انہوں نے کمپیوٹر خریدے یا ان کو بہتر کیا۔
اس کے علاؤہ لاک ڈاؤن کی فراغت میں بہت سے لوگوں نے خود کو مصروف رکھنے کے لیے آن لائن گیمنگ شروع کردی جس کی وجہ سے آئی ٹی پارٹس کا کاروبار کورونا لاک ڈاؤن میں بھی مثبت رہا۔
عارف کے مطابق ڈیڑھ دو سال پہلے تک گاہک 50 ہزار میں گیمنگ پی سی بنواتا تھا، مگر اب 4 لاکھ سے زائد مالیت کے گیمنگ پی سی بن رہے ہیں، اور لوگ گیمنگ میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں۔
پاکستان نے تاحال کرپٹو کرنسی میں لین دین کو غیر قانونی قرار دیا ہوا ہے اور اس لین دین میں ملوث افراد کو گرفتار بھی کیا جا رہا ہے۔ تاہم کچھ ماہ قبل خیبرپختونخوا اسمبلی میں کرپٹو مائننگ کو قانونی قرار دینے اور اسے حکومتی سرپرستی میں دیے جانے کا موضوع زیر بحث رہا۔
