اردو ادب میں ذوق، مومن اور غالب کی فراموشی کا تصور گناہ جیسا لگتا ہے لیکن یہ گناہ ذوق کے ساتھ برسوں سے انجام دیا جا رہا ہے۔ دہلی نے ذوق کو کچھ ایسا فراموش کیا کہ پہلے دانستہ یا نادانستہ طور پر بلدیہ نے ان کے مقبرے پر بیت الخلا تعمیر کر دی۔
بے پناہ جدوجہد کے بعد بیت الخلا منہدم ہوا تو اب ان کا مقبرہ ہمیشہ مقفل ہی رہتا ہے۔ آثار قدیمہ نے اس مزار کو اپنے قبضے میں ضرور لیا، مگر اس کے ساتھ ’آسیب زدہ مکان‘ کی طرح سلوک کیا جا رہا ہے۔
نئی دہلی ریلوے سٹیشن کے پاس پہاڑ گنج واقع ہے۔ دہلی سے شناسائی رکھنے والے پہاڑ گنج کے نام سے عام طور پر واقف ہوتے ہیں۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں تقسیم ملک کے بعد پاکستان سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین نے پناہ لی تھی اور دھیرے دھیرے یہاں بس گئے۔
یہ ہوٹلوں کے طویل سلسلے کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس سے متصل نبی کریم قبرستان ہے۔ جہاں ایک وقت میں صرف قبریں تھیں۔ یہاں رہنے والے پاکستان ہجرت کر گئے اور مہاجرین قبروں میں بھی بس گئے۔ اب یہاں گنجان آبادی ہے۔
چھوٹے چھوٹے کمرے اور تنگ سیڑھیوں پر مشتمل درجنوں عمارتیں ایک ساتھ کھڑی ہیں۔ تنگ گلیوں میں چھوٹے بڑے کارخانے کھلے ہوئے ہیں۔ پہاڑ گنج کی انتہائی مصروف شاہراہ کے وسط سے جب نبی کریم یا چینوٹ بستی کی طرف جائیں گے تو پتلی گلیوں سے گزرتے ہوئے ایک جگہ پر ذوق کا مزار مل جائے گا۔
سرخ بوسیدہ دیوار سے گھرا ایک حصہ جہاں اب ذوق کا مزار محفوظ ہوگیا ہے۔
اس مزار کا ایک دروازہ ہے، جو عام طور پر مقفل رہتا ہے اور اس کے سامنے ریڑھے والے تاش کھیلتے رہتے ہیں۔ یہ حالت ذوق کے مزار کی اس شہر میں ہے، جس شہر میں ذوق کو طوطی ہند اور خاقانی ہند کا خطاب ملا۔
جس شہر میں ذوق کو استادوں کا استاد مانا گیا۔ غالب کے سامنے بھی قد آور رہے۔ اسی شہر کی خلق نے شیخ ابراہیم ذوق کی آرامگاہ کا وہ حشر کیا کہ اردو کے ساتھ حساسیت کا رشتہ رکھنے والے سناٹے میں پڑ جائیں۔
غالب اکیڈمی کے سیکریٹری محمد عقیل بتاتے ہیں کہ ذوق کے مقبرے کو خلق خدا کا ستم مسلسل سہنا پڑا ہے۔ گذشتہ سو سالوں کے دوران ذوق کے مقبرے کی حفاظت میں بڑے بڑے لوگوں کو جدوجہد کرنی پڑی۔ سنہ 1920 سے قبل ذوق کا مزار اچانک لوگوں کے ذہن سے غائب ہوگیا۔ اس عہد میں حکیم اجمل خان اور دہلی کے کچھ لوگوں نے مزار ذوق کے احاطے کی مرمت کرائی۔
سنہ 1947 کے فسادات میں ذوق کے مزار کا کتبہ غائب ہوگیا۔ اس کے بعد ذوق کے مزار پر کسی کی توجہ نہیں رہی۔ 1950 میں مولانا حفظ الرحمان دہلی وقف بورڈ کے ناظر تھے۔ ذوق کے مزار کی مرمت اور بحالی کی پھر کوشش ہوئی۔
اس وقت دہلی وقف بورڈ کے ایک ملازم نے ذوق کے مزار کے بارے میں ایک نوٹ لکھا تھا۔ جس کا ذکر شاہد ماہلی نے اپنی کتاب ’مزارات غالب و ذوق‘ میں کیا ہے۔ ملازم کے مطابق ’قبرستان احاطہ استاد ذوق قبرستان نبی کریم کے قریب دو سو گز اراضی سردار علی گورکن ایک مہاجر کے ہاتھ چھ روپے گز کے حساب سے فروخت کر کے پاکستان چلا گیا۔‘
وقف بورڈ اور اردو کی متحرک تنظیموں کی جانب سے مسلسل کوشش کی گئی مگر اڑچنیں آتی رہیں اور مقبرے کی مرمت نہیں ہو پائی۔ محمد عقیل کے مطابق کچھ دہائیوں پہلے (60 کی دہائی میں) غضب ہوگیا جب بلدیہ نے ان کے مزار پر بیت الخلا تعمیر کر دی۔
انہوں نے فیروز بخت کے مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں کے مہاجرین کے پاخانے کی ضرورت کے مدنظر بلدیہ نے 14 بیت الخلا یعنی سات خواتین اور سات مرد حضرات کے لیے کمرے والے بیت الخلا بنا دیے۔
اسے منہدم کرانے کی کوششیں چار دہائیوں تک ہوتی رہی۔ بات اندرا گاندھی تک پہنچی۔ خطوط اور احتجاجی بیانات کا سلسلہ شروع ہوا۔ بڑی بڑی شخصیات نے کوششیں کیں مگر بلدیہ کے فرقہ پرست عہدیداروں سے جیتنا اتنا آسان ثابت نہیں ہوا۔ معاملہ عدالت عظمیٰ میں پہنچا اور پھر 1998 میں ذوق کے مزار کی بحالی کا فیصلہ آیا۔
اتنے برس گزرنے کے بعد ذوق کے مزار کی بحالی ہو پائی اور آثار قدیمہ نے غالب کے مزار کی طرح ذوق کے مزار کی نگرانی کی ذمہ داری لے لی۔ لیکن یہ ذمہ داری مقبرے کو مقفل کر کے نبھائی جا رہی ہے۔
مقامی لوگوں کو بھی ذوق کے بارے میں زیادہ پتہ نہیں ہے۔ زیادہ تر افراد روزگار کی وجہ سے ان حصوں میں آباد ہیں۔ مزار کے سامنے کارخانے کے مکین نے بتایا کہ ان کی کھڑکی سے ذوق کا مزار دکھتا ہے۔ یہ زیادہ تر بند رہتا ہے اور کبھی کبھی کھلتا ہے۔
غالب اکیڈمی کے سیکریٹری شیخ عقیل بتاتے ہیں کہ ذوق کے مزار سے کچھ کلو میٹر کے فاصلے پر غالب کا مزار ہے، جو عام زائرین کے لیے کھلا رہتا ہے۔ یہاں تھوڑی رونق بھی رہتی ہے۔ اس معاملہ میں غالب زیادہ خوش قسمت ثابت ہوئے ہیں۔