مریضہ سے رضا کار بننے کا سفر، سعودی خاتون نابینا افراد کی مدد کرنے لگیں
نوف الرشیدی ایک حادثے میں بینائی سے محروم ہو گئی تھیں۔(فوٹو عرب نیوز)
ایک سعودی خاتون جو پانچ سال بینائی سے محروم رہیں اس تجربے نے انہیں نابینا افراد کی مدد کرنے کی ترغیب دی ہے۔
نوف الرشیدی گھر کی صفائی کرتے ہوئے ایک حادثے کے نتیجے میں بینائی سے محروم ہو گئی تھیں۔ اس حادثے نے نہ صرف ان کے وژن کو متاثر کیا بلکہ جذباتی طور پر انہیں ایک تاریک جگہ پر ڈال دیا۔ انہوں نے اہم خاندانی تقریبات میں جانا چھوڑ دیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ان کی زندگی تھم گئی ہے۔
تاہم دو سال قبل کنگ خالد آئی سپیشلسٹ ہسپتال میں ہونے والے آپریشن نے نوف الرشیدی کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔
اپنی کھوئی ہوئی بینائی حاصل کرنے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ وہ ان لوگوں کے لیے کچھ کر سکتی ہیں جن کو اس کی طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
الرشیدی اب اسی ہسپتال میں ایک رضاکار کی حیثیت سے اس وارڈ میں مریضوں کی عیادت کرتی ہیں جہاں وہ ایک بار اپنے علاج کے لیے موجود تھیں۔
انہوں نےعرب نیوز کو بتایا کہ اس ذاتی تجربے نے انہیں متاثر کیا۔
انہوں نے کہا ’ اپنے بیٹے اور بیٹی کی شادیوں میں شامل نہیں ہوئی۔ میں واپس نہیں جاسکتی ہوں اور نہ ان کو خوشی دے سکتی ہوں۔ میں ان لوگوں کی مدد نہیں کر سکتی ہوں جو اپنی زندگی میں خاص تقریبات میں شریک نہیں ہو سکتے لیکن میں مددگار ہاتھ دے سکتی ہوں۔‘
الرشیدی سات سال قبل کچن میں کلیننگ ایجنٹ کا استعمال کرتے ہوئے زخمی ہوئی تھیں۔ ان کے شوہر انہیں قریبی ہسپتال لے گئے جہاں انہیں پانچ دن تک انتہائی نگہداشت یونٹ میں رکھا گیا تھا۔
ہسپتال میں ایک مہینہ گزارنے کے بعد انہیں کنگ خالد آئی سپیشلسٹ ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کی کارنیل ٹرانسپلانٹ سرجری ہوئی جو ناکام رہی۔ پانچ سال بعد ان کی کارنیل ٹرانسپلانٹ کا کامیاب آپریشن ہوا۔
الرشیدی نے کہا کہ سرجری کی کامیابی نے اعتماد اور زندگی کے بارے میں ایک نیا نظریہ بنانے میں ان کی مدد کی۔ انہوں نے کہا ’جب صحت یابی کے بعد اپنے والدین کو روتے ہوئے دیکھا تو بہت جذباتی تھی خاص کر اس وجہ سے جب وہ میری بینائی کے واپس آنے کی امید چھوڑ چکے تھے۔ وہ مشکل لمحات تھے جنہیں میں کبھی بھول نہیں سکتی۔‘
انہوں نے کہا کہ خاندان نے سپورٹ میں بڑا کردار ادا کیا۔ یہ تجربہ آسان نہیں تھا اور انہیں بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا لیکن ’لوگوں کو ان نعمتوں کی قدر معلوم تھی۔ زیادہ تر لوگ ان نعمتوں کی قدر محسوس نہیں کرتے جب تک کہ وہ ان سے محروم نہ ہو جائیں۔‘
انہوں نے کہا’معاشرے نے انہیں بڑے پیار سے قبول کیا، ہر لمحہ اور ہر قدم میں ان کی سپورٹ کی۔‘ وہ معاشرے کو ان کا پیار واپس کرنا چاہتی تھی لہذا اسی طرح کے تجربات کا سامنا کرنے والوں کی مدد کے لیے وہ ہسپتال میں ایک رضاکار بن گیئں۔
انہوں نے کہا ’ہمیشہ امید رہتی ہے۔ ناممکن لفظ ذہنوں پر ہرگز نہیں ہونا چاہئے اور انہیں ایک مددگار ہاتھ کی ضرورت ہے۔‘