Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کی طرف سے غزہ میں انسانی امداد روکنے کے اسرائیلی فیصلے کی مذمت

اس فیصلے کو’ بلیک میل اور اجتماعی سزا‘ کی کارروائی قرار دیا ہے (فوٹو: روئٹرز)
سعودی عرب نے غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کے داخلے کو روکنے کے اسرائیلی حکومت کے فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق وزارت خارجہ نے اتوار کو بیان میں اس فیصلے کو’ بلیک میل اور اجتماعی سزا‘ کی کارروائی قرار دیا جو بین الاقوام قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔
بیان میں وزارت خارجہ نے خبردار کیا کہ یہ اقدام غزہ میں بگڑتے ہوئے  انسانی بحران کے پس منظر میں جس کا سامنا فلسطینی عوام کر رہے ہیں بین الاقوامی انسانی قوانین کے اصولوں کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔
مملکت نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کی ان سنگین خلاف ورزیوں کو روکنے کےلیے اقدامات کرے۔ بین الاقوامی احتساب کے میکنزم کو فعال کرے اور امداد کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
یاد رہے کہ اسرائیل نے اتوار کو کہا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں تمام سامان اور رسد کا داخلہ روک رہا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر نے اس فیصلے کی وضاحت نہیں کی تاہم خبردار کیا کہ اگر حماس نے جنگ بندی میں توسیع کی امریکی تجویز کو قبول نہ کیا تو اسے ’مزید نتائج‘ بگھتنے ہوں گے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے امداد کی فراہمی معطل کرنے کے بعد غزہ میں قحط کے خطرے کے بار بار انتباہی پیغامات کو ’جھوٹ‘ قرار دیا ہے۔
انہوں نے یروشلم میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’اس بھوک کے (دعوے کے) حوالے سے اس تمام جنگ میں جھوٹ بولا گیا۔ یہ جھوٹ تھا۔‘
دوسری طرف حماس نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی میں توسیع کی ایک نئی تجویز کو اپنا کر اسے (جنگ بندی) کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
 اسرائیل کی جانب سے امداد بند کرنے کا فیصلہ ’سستی بھتہ خوری، جنگی جرم اور (جنگ بندی) معاہدے پر صریحً حملے‘ کے مترادف ہے۔
اسرائیل اور حماس میں جنگ بندی کا پہلا مرحلہ، جس میں انسانی امداد میں اضافہ بھی شامل تھا، سنیچر کو ختم ہو گیا۔ دونوں فریقوں نے ابھی دوسرے مرحلے پر بات چیت کرنی ہے، جس میں حماس کو اسرائیلی انخلا اور دیرپا جنگ بندی کے بدلے میں باقی کے درجنوں یرغمالیوں کو رہا کرنا ہے۔

 

شیئر: