اسلام آباد ہائی کورٹ نے سینیٹ کے چیئرمین کے الیکشن کے خلاف پیپلز پارٹی کی درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے اسے ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دیا۔
بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 13 صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں کہا کہ ’چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے خلاف درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔‘
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’توقع ہے کہ پارلیمنٹ کے فیصلے پارلیمنٹ کے اندر ہی حل کیے جائیں گے اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے گا۔‘
اس سے قبل بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیپلز پارٹی کے سینیٹر یوسف رضا گیلانی کی جانب سے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی کامیابی اور سات ووٹ مسترد کیے جانے کے خلاف دائر درخواست پر ان کے وکیل فاروق ایچ نائیک کے ابتدائی دلائل سننے کے بعد درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا۔
فاروق ایچ نائیک نے درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سینیٹ سیکرٹریٹ نے بیلٹ پیپر پر امیدوار کے نام کے خانے میں کسی جگہ بھی مہر لگانے کا کہا جبکہ یوسف رضا گیلانی کے ووٹ پریذائیڈنگ آفیسر نے اس لیے مسترد کر دیے کہ مہر یوسف رضا گیلانی کے نام کے اوپر لگی ہوئی تھی۔
مزید پڑھیں
-
سینیٹ الیکشن میں شکست، پی ڈی ایم میں اب کس کا بیانیہ چلے گا؟Node ID: 548506
-
’سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں سب نے ایک دوسرے سے بدلہ لے لیا‘Node ID: 548871
-
پاکستان کے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی دوڑ، فیصلہ کیسے ہو گا؟Node ID: 550051
دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا آئینی طریقہ کیا ہے؟ فاروق نائیک نے عدالت میں بتایا کہ تحریک عدم اعماد کے ذریعے چیئرمین سینیٹ کو ہٹایا جا سکتا یے۔ جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر یوسف رضا گیلانی کو لگتا ہے کہ ان کے پاس ووٹ زیادہ ہیں تو وہ چیئرمین سینیٹ کو اس طرح کیوں نہیں ہٹا دیتے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس کے لیے ہمیں پہلے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ ماننا پڑے گا۔ ہم تو صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ تسلیم ہی نہیں کرتے۔ عدالت کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ سات ووٹوں کا مسترد کیا جانا درست تھا یا نہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کہ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کس قانون کے تحت ہوئے ہیں۔ کیا الیکشن کمیشن کا اس میں کوئی کردار تھا؟
فاروق نائیک نے آئین کا آرٹیکل 60 عدالت کے سامنے پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ صدر پاکستان نے سینیٹر مظفر شاہ کو سینیٹ الیکشن میں پریزائیڈنگ افسر مقرر کیا گیا تھا۔ چیئرمین سینیٹ الیکشن میں الیکشن کمیشن کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پھر پارلیمان کی اندرونی کارروائی کے استحقاق کے آئین کے آرٹیکل 69 سے کیسے نکلیں گے؟ کیا پارلیمان کی اندرونی کارروائی عدالت میں چیلنج کی جا سکتی ہے؟
فاروق ایچ ایچ نائیک نے جواب دیا کہ رولز میں بیلٹ پیپر یا ووٹ سے متعلق کچھ نہیں۔ رولز اس حوالے سے خاموش ہیں۔ بارہ مارچ کے چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں پارلیمان کا بزنس یا پروسیجر شامل نہیں۔ عدالت میں پروسیجر نہیں بلکہ الیکشن کو چیلنج کر رہا ہوں۔
