اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں اختلافات کے بعد سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے کی دوڑ بھی دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گئی ہے جہاں پر اتحاد میں شامل دو بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلزپارٹی دونوں ہی اس اہم عہدے پر اپنی جماعت کا حق جتا رہے ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ سینیٹ میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہونے کے ناطے لیڈر آف دی اپوزیشن کے عہدے پر ان کی جماعت کا حق بنتا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں ابھی تک پارٹی نے کسی کو نامزد نہیں کیا۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم جماعتوں میں یہ ضرور طے ہوا تھا کہ چیئرمین کا عہدہ پیپلز پارٹی کو ملنے کی صورت میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ مسلم لیگ نواز کو دیا جائے گا، تاہم چونکہ یوسف رضا گیلانی صاحب چیئرمین سینیٹ نہیں بنے اس لیے اب اس عہدے پر اپوزیشن کی سنگل لارجسٹ پارٹی ہونے کے ناطے پیپلز پارٹی کا حق ہے۔
مزید پڑھیں
-
سینیٹ الیکشن میں شکست، پی ڈی ایم میں اب کس کا بیانیہ چلے گا؟Node ID: 548506
-
مارچ ملتوی مگر مولانا کا پریس کانفرنس چھوڑ کر جانا بہت معنی خیزNode ID: 549286
تاہم انہوں نے ان اطلاعات کی تردید کی کہ پیپلز پارٹی سینیٹر شیری رحمن کو اپنا اپوزیشن لیڈر مقرر کر چکی ہے۔
یاد رہے کہ سینیٹ ویب سائٹ کے مطابق اس وقت پیپلز پارٹی کے 20 سینیٹرز ہیں جبکہ ابھی آزاد امیدواروں نے اپنی جماعت کا فیصلہ کرنا ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ نواز کے 18 سینیٹرز ایوان میں موجود ہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹرز کی تعداد پانچ ہے۔
مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما رانا ثنا اللہ نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ ان کی جماعت کو ملنا چاہیے کیونکہ پی ڈی ایم اجلاس میں طے ہوا تھا کہ چیئرمین پیپلز پارٹی اور ڈپٹی چیئرمین جے یو آئی ایف کو ملے گا جبکہ اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ نواز کا ہو گا۔
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا تعین کیسے ہوتا ہے؟
سینیٹ کے قواعد و ضوابط کے مطابق لیڈر آف دی اپوزیشن کا مطلب ہے ایسا رکن سینیٹ جس کو سینیٹ میں اپوزیشن کے ممبران کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو اور اسے چئیرمین سینیٹ اس عہدے پر نامزد کر دیں۔ قواعد وضوابط کی شق 16 کے مطابق چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے پندرہ دن کے اندر چیئرمین کو اپوزیشن لیڈر کا تعین کرنا ہوتا ہے۔

اس سلسلے میں چیئرمین سینیٹ ممبران کو اپوزیشن لیڈر کی نامزدگی کے وقت، تاریخ اور مقام کا تحریری طور پر اپنے دستخطوں سے بتائے گا۔ آزاد ارکان کو سات دن کے اندر اپنی وفاداری کا تعین کرنا ہوگا۔ اس مدت کے بعد بھی آزاد رہنے والے ارکان اپوزیشن لیڈر کے لیے اپنی حمایت نہیں کرسکیں گے۔
عام طور پر اپوزیشن ارکان اپنے دستخطوں سے اپنے حمایت یافتہ لیڈر کا نام چیئرمین کو پیش کرتے ہیں اور جس نامزد رکن کی درخواست پر زیادہ ممبران کے دستخط ہوں چیئرمین اسے عہدے پر فائز کر دیتے ہیں۔
تاہم اگر دو حریف نامزدگان کی درخواستوں پر ایک جتنے ارکان کے دستخط ہوں یعنی مقابلہ برابر ہو جائے تو قواعد کے مطابق اس رکن کو عہدہ ملے گا جس کی اپنی پارٹی کے پاس سینیٹ میں دوسرے کے مقابلے میں زیادہ ارکان ہوں، یعنی اس بار مقابلہ برابر ہونے کی صورت میں پیپلز پارٹی کا نامزد کردہ رکن ہی اپوزیشن لیڈر مقرر ہوگا۔
اپوزیشن لیڈر کے عہدے کی طلب کیوں؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل دونوں جماعت آخر اس عہدے کو اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہیں؟
