Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں سوشل میڈیا قوانین پر غور کے لیے دوبارہ کمیٹی تشکیل، تنازع کیا ہے؟ 

حکومتی کمیٹی کی چیئر پرسن وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیری مزاری ہوں گی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں سوشل میڈیا قوانین گزشتہ برس فروری میں تیار کیے گئے لیکن سائبر حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں اور سول سوسائٹی کی جانب سے شدید تنقید کے بعد وزیراعظم نے ان رولز پر نظر ثانی کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی۔
اس کمیٹی میں سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد سوشل میڈیا کے ترمیم شدہ قوانین کو گزشتہ برس نومبر میں نافذ کر دیا گیا تھا لیکن سول سوسائٹی نے کئی خامیوں کی نشاندہی کی اور معاملہ عدالت میں جا پہنچا۔ 
اسلام آباد ہائی کورٹ میں وفاقی حکومت کی جانب سے رولز پر نظر ثانی کی یقین دہانی کے بعد ایک بار پھر وزیراعظم نے سوشل میڈیا رولز پر غور کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ 
اٹارنی جنرل آفس سے جاری اعلامیے کے مطابق حکومتی کمیٹی کی چیئر پرسن وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری ہوں گی جبکہ کمیٹی میں پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون ملیکہ بخاری، سینیٹر بیرسٹر علی ظفر، سیکرٹری وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن دیگر ممبران ہوں گے۔ 

کمیٹی کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟

اعلامیے کے مطابق کمیٹی تیس روز کے اندر اپنی سفارشات وزیراعظم کو پیش کرے گی۔ 
کمیٹی تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد نظر ثانی شدہ رولز وزیراعظم کو تجویز کرے گی۔
واضح رہے کہ ترمیم شدہ سوشل میڈیا رولز کے خلاف سول سوسائٹی اور پاکستان بار کونسل کی جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔

پاکستان میں سوشل میڈیا رولز پر گزشتہ ڈیڑھ برس سے تنازع چلا آ رہا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا تھا کہ پی ٹی اے نے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بجائے از خود رولز بنا کر عدالت میں پیش کیے جو آئین سے متصادم ہیں انہیں فی الفور ختم کیا جائے۔ 

سوشل میڈیا رولز ہیں کیا؟ 

حکومت پاکستان نے گذشتہ برس فروری میں سوشل میڈیا مواد کے قوانین متعارف کروائے تھے تاہم ان قوانین پر شدید ردعمل آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے رولز میں ترمیم کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ جس نے ترامیم تجویز کیں اور بعد ازاں یہ رولز نومبر 2020 میں لاگو ہوئے۔
نئے رولز کے مطابق سوشل میڈیا پر مواد کو ریگولیٹ کرنے اور ’غیر قانونی مواد‘ کے حوالے سے شکایات پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) دیکھے گی۔  
نئے سوشل میڈیا رولز کے مطابق ’اتھارٹی کسی بھی مواد یا انفارمیشن میں خلل نہیں ڈالے گی یا محدود نہیں کرے گی سوائے ایسے مواد کے جو اسلام مخالف، پاکستان کی سالمیت، دفاع اور سکیورٹی کے خلاف ہو۔‘ 
اس کے علاوہ مفاد عامہ اور عوامی صحت سے متعلق کسی بھی قسم کی غلط معلومات کی تشہیر کے خلاف اتھارٹی کے پاس کارروائی کرنے کا اختیار ہوگا جبکہ ’غیر اخلاقی‘ مواد کو بھی بلاک یا ہٹانے کا اختیار ہوگا۔

پاکستان میں ماضی میں یوٹیوب، فیس بک اور ٹک ٹاک پر عدالتی احکامات کے ذریعے پابندیاں لگتی رہی ہیں۔ فوٹو: روئٹرز

ترمیم شدہ رولز میں ایسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جس پر پانچ لاکھ سے زیادہ پاکستانی صارفین موجود ہوں گے خود کو پاکستان میں رجسٹر کروانے اور دفاتر کھولنے کے پابند ہوں گے۔ سوشل میڈیا کمپنیز کو نو ماہ کا وقت دیا گیا جبکہ پہلے رجسٹریشن کے لیے تین ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔
رولز کے اطلاق سے نو ماہ کے اندر پانچ لاکھ سے زائد صارفین رکھنے والے سوشل میڈیا پلٹ فارمز پی ٹی اے میں خود کو رجسٹرڈ کروائیں گے اور اس عرصے کے دوران پاکستان میں اپنے دفتر کھولنے کے پابند ہوں گے۔'
اس کے علاوہ سوشل میڈیا کمپنیز تین ماہ کے اندر فوکل پرسن مقرر کرنے کی پابند ہوں گی جو پی ٹی اے اور سوشل میڈیا کمپنی کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرے گا۔ 
سوشل میڈیا کمپنیز کو پاکستانی صارفین کے ڈیٹا کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے 18 ماہ کے اندر ایک یا ایک سے زائد ڈیٹا سرور قائم کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی قسم کی تحقیقات کے لیے سوشل میڈیا کمپنی یا پلیٹ فارم دستیاب معلومات اتھارٹی کو مہیا کرنے کا پابند ہوگا۔
نئے رولز کے مطابق ایسے مواد کی لائیو سٹریمنگ یا اپ لوڈنگ قابل گرفت جرم ہوگا جس میں دہشت گردی، شدت پسندی، نفرت انگیز مواد، فحش، تشدد پر اکسانے یا پاکستان کی سکیورٹی کے خلاف مواد شامل ہو۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود مواد سے متاثرہ شخص پی ٹی اے میں شکایات درج کر سکے گا، اس کے علاوہ کوئی بھی وزارت، ڈویژن، صوبائی محکمہ یا سکیورٹی ادارے کسی مواد کے خلاف آن لائن شکایت کر سکیں گے جبکہ اتھارٹی شکایت کنندہ کی شناخت کو خفیہ رکھنے کی پابند ہوگی۔ 
اس کے علاوہ اتھارٹی کو بھی کسی غیر قانونی مواد کے خلاف متعلقہ کمپنی کو مواد ہٹانے کی ہدایات جاری کرنے کا اختیار ہوگا۔

شیئر: