اپوزیشن جماعتوں کی ایک دوسرے سے راہیں جُدا، اصل ذمہ دار کون ہے؟
اپوزیشن جماعتوں کی ایک دوسرے سے راہیں جُدا، اصل ذمہ دار کون ہے؟
منگل 6 اپریل 2021 19:02
عوامی نیشنل پارٹی کے الگ ہو جانے کو اپوزیشن اتحاد کے لیے بڑا جھٹکا قرار دیا جا رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
منگل کو لڑکھڑاتے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کو ایک بڑا جھٹکا اس وقت لگا جب اتحاد کی اہم جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے شوکاز نوٹس ملنے پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس سے الگ ہونے کا اعلان کردیا۔
دوسری طرف اتحاد کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر شوکاز نوٹس ملنے پر شدید برہم ہے اور تجزیہ کاروں کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کے تعلقات بھی کشیدہ ہیں اور ایسے ہی حالات رہے تو ساتھ چلنا مشکل ہو جائے گا۔
گویا سات ماہ قبل اسلام آباد میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں تشکیل پانے والے اتحاد کے باقاعدہ خاتمے کا آغاز ہو گیا ہے۔
منگل کی پریس کانفرنس میں اے این پی کے رہنما امیر حیدر ہوتی نے پی ڈی ایم سے علیحدہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب اس اتحاد کا نام پی ڈی ایم نہیں رہا۔
یاد رہے کہ سوموار کو پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل اور مسلم لیگ نواز کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے اتحاد میں شامل دو جماعتوں پیپلزپارٹی اوراے این پی کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کیے تھے اور ان سے اس بات کی وضاحت مانگی تھی کہ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے کے لیے یوسف رضا گیلانی کو نامزد کرتے ہوئے انہوں نے پی ڈی ایم کے معاہدے کی خلاف ورزی کیوں کی اور حکومتی سینیٹرز کی مدد کیوں لی گئی۔
پی ڈی ایم رہنماؤں کی ایک دوسرے پر الزام تراشی
اے این پی کے رہنما نے مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام کو اتحاد ٹوٹنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ اے این پی کے صدر اسفند یار ولی خان کے علاوہ کسی کو اختیار نہیں کہ وہ ہماری پارٹی کو نوٹس دے۔‘
بقول ان کے ’اے این پی ذاتی ایجنڈے کے لیے کسی کا ساتھ نہیں دے سکتی اور پی ڈی ایم نے شوکاز نوٹسز جاری کر کے خود ہی اپنے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔
تاہم اے این پی کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے مسلم لیگ نواز کے رہنما اور نواز شریف اور مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر نے اتحاد سے علحدگی کو افسوسناک قرار دیا۔
مولانا عبدالغفور حیدری نے پیپلز پارٹی اور اے این پی کو تنقید کا نشانہ بنایا (فوٹو: ٹوئٹر، جے یو آئی)
ان کا کہنا تھا کہ ’اے این پی نے ایک بہت بڑا قدم اٹھایا ہے اس پر بات ہو سکتی تھی۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ قدم پی ڈی ایم کے لیے متوقع تھا یا غیر متوقع، تو انہوں نے اس کا واضح جواب دینے کے بجائے کہا کہ ’تحریک میں مختلف جماعتیں ہوتی ہیں اور ان کی آرا بھی مختلف ہوتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پی ڈی ایم نے اپنے سامنے جو اہداف رکھے تھے اگر ان کے مطابق چلا جاتا تو معاملات اتنے خراب نہ ہوتے۔‘
انہوں نے پی پی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’اس نے اپوزیشن لیڈر کے معاملے پر پی ڈی ایم کو اعتماد میں نہیں لیا۔‘
دوسری طرف جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا غفور حیدری نے ردعمل میں کہا کہ ’اے این پی نے الزام لگایا کہ مولانا فضل الرحمان نے اتحاد کی صحیح قیادت نہیں کی۔‘ ‘
مسلم لیگ کے رہنما اور نواز شریف کے ترجمان محمد زبیر کے مطابق ’تحریک میں مختلف جماعتیں ہوتی ہیں اور ان کی آرا بھی مختلف ہوتی ہیں۔‘ (فوٹو: اے پی پی)
بقول ان کے ’ہو سکتا ہے اس کی نظر میں یہ بات درست ہو، مگر جس طرح اے این پی اور پی پی نے مل کر حکومت سے تعاون حاصل کیا تاریخ میں اتنا رسوا کن سیاسی عمل کبھی نہیں دیکھا گیا۔‘
غفور حیدری کے مطابق ’جھکنے اور بکنے کے بھی کوئی طریقے ہوتے ہیں، ان کے کردار پر بہت جگ ہنسائی ہوئی۔‘
مولانا عبدالغفور حیدری کا مزید کہنا تھا کہ ’انہوں نے جو کچھ کیا وہ سیاسی طور پر موت کے مترادف ہوتا ہے اور جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں کیا تو کہا، یاری دوستی میں کیا۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’یاری دوستی اپنی جگہ ہوتی ہے اور اصول اپنی جگہ۔‘
ان کے مطابق ’تحریک وہ جماعتیں چلا سکتی ہیں جو دباؤ برداشت کر سکیں کشتیاں جلا کر نکلیں۔‘
‘فضل الرحمن اور مسلم لیگ ن نے معاملے کو غلط ڈیل کیا
سیاسی تجزیہ کار اور سینئر صحافی سہیل وڑائچ کے مطابق مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ نواز نے استعفوں اور اپوزیشن لیڈر کے معاملے کو درست طریقے سے ہینڈل نہیں کیا۔۔
تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمان نے معاملے کو غلط طور پر ڈیل کیا۔‘ (فوٹو: مسلم لیگ ن، میڈیا سیل)
مقامی ٹی وی سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’اس طرح کا سیاسی اتحاد ایک ڈھیلا ڈھالا اتحاد ہوتا ہے جس میں باہمی تعاون کا کم سے کم ایجنڈا ہوتا ہے۔ اس پر شوکاز نوٹس دینا شروع کر دیں تو اتحاد نہیں چل سکتا۔‘
سہیل وڑائچ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’جب نواز شریف چپ کر کے ملک سے باہر چلے گئے تھے تو اس وقت کون سی مشاورت ہوئی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سندھ میں حکومت کے باعث پاکستان پیپلز پارٹی اس سسٹم میں واحد سٹیک ہولڈر تھی اس لیے اس نے استعفوں کے معاملے میں درست موقف اختیار کیا۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’پی ڈی ایم کے اجلاس میں آصف زرداری کی جانب سے نواز شریف پر تنقید ایک غلط عمل تھا جس سے معاملات خراب ہوئے اور ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کا موقع مل گیا۔‘