Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نواز شریف کے مزاحمتی بیانیے کا آغاز کب ہوا تھا؟

غلام اسحاق خان اور نواز شریف میں قدر مشترک ضیاء الحق کی ہمنوائی اور سرپرستی تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
18 اپریل 1993 کو نواز شریف حکومت کی برطرفی کا پروانہ عوام کی اکثریت کے لیے سیاسی دھماکہ تھا۔ ملک کے دو بڑوں کے درمیان دوریوں اور تلخیوں سے باخبر سیاسی حلقوں کے لیے یہ خبر غیر متوقع نہ تھی، اور جنہیں محض ایک دن قبل وزیراعظم نواز شریف کی تند و تیز باغیانہ تقریر کے نتائج کا اندازہ تھا ان کے نزدیک اس واقعے کا نہ ہونا اچھنبے کی بات ہوتی۔
17 اپریل کو ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی تقریر میں وزیراعظم نواز شریف نے کسی کمزوری، کوتاہی اور پسپائی کا مظاہرہ نہ کرنے اور ڈکٹیشن نہ لینے کا اعلان کر کے گویا طبل جنگ بجا دیا تھا۔
لاہور کے کشمیری النسل خاندان سے تعلق رکھنے والے میاں محمد نواز شریف جو ہمیشہ مقتدرہ کے سامنے خود سپردگی کے خوگر رہے تھے، یکایک سیاسی خود سری پر کیوں اتر آئے؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ان کے سیاسی سفر اور سوچ کے ارتقاء کا جائزہ لینا ہوگا ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے نجات کے بعد ضیاء الحق پنجاب میں ان کے سیاسی اور معاشی اثرات کو ختم کرنے کے درپے تھے۔ گذشتہ دور کی معاشی پالیسیوں کے برعکس ڈی نیشنلائزیشن اور ڈی ریگولیشن کے لیے تجارتی اور صنعتی پس منظر کے حامل ایسے متبادل کی تلاش تھی جو پنجاب میں پیپلز پارٹی کے سیاسی اثرات کو کم کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔
فیصلہ سازوں نے اس کام کے لیے نواز شریف کا انتخاب کیا۔ تاہم اس سچائی سے انکار بھی ممکن نہیں کہ نوآموز نواز شریف نے پنجاب کے بااثر اور جدی پشتی سیاسی لیڈروں اور گھرانوں کی موجودگی میں اپنا سیاسی راستہ اور انتخابی ورثہ کامیابی سے تشکیل دیا۔
پنجاب میں مخدوم زادہ حسن محمود، مخدوم الطاف، ملک اللہ یار، حامد ناصر چٹھہ، گجرات کے چوہدریوں، خوشاب کے ٹوانوں، لڈن کے دولتانہ خاندان اور ملتان کی گیلانی اور قریشی فیملی اس دور میں سیاست کے بڑے نام تھے۔
ایسے روایتی لیڈروں کی موجودگی میں ایک شہری صنعتکار خاندان کا پنجاب کی جوڑ توڑ اور قبیلائی عصبیت والی سیاست میں وزارت اعلٰی چلانا معمولی واقعہ نہ تھا۔

پنجاب میں پیپلز پارٹی کا اثر کم کرنے کے لیے نواز شریف کا انتخاب کیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

صوبے میں حکمرانی کے ساتھ ساتھ انہیں مسلم لیگ میں محمد خان جونیجو کی مخاصمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جو وزارت عظمی سے محروم ہونے کے بعد مسلم لیگ کی صدارت کو سیاست میں زندہ رہنے کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔
1988 کے الیکشن میں بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو ان کی اپوزیشن کا مورچہ قومی اسمبلی سے زیادہ پنجاب میں جما۔ پیپلز پارٹی مخالف دائیں بازو کا روایتی اور مختلف پارٹیوں میں بٹا ہوا ووٹر نوازشریف کے گرد اکٹھا ہونا شروع ہو گیا۔
اسی طرح 70 کی دہائی کی نیشنلائزیشن کی پالیسیوں سے شاکی تاجر طبقے کو بھی ان کی شکل میں اپنے مفاد کا رکھوالا نظر آیا۔ ان دونوں مؤثر طبقات کے ساتھ ریاست کی ہیت مقتدرہ کی پشت پنائی نے انہیں وزیراعظم کے منصب تک پہنچایا۔
نواز شریف کی حکومت کو اپنی پیش رو بے نظیر بھٹو کے برعکس صوبوں میں اپوزیشن کی حکومت کے چیلنج کا سامنا نہ تھا۔ سندھ میں وفاق کی سرپرستی اور سیاسی جوڑ توڑ سے معمولی عددی برتری کی بنیاد پر جام صادق علی بلامقابلہ وزیر اعلٰی بن گے۔
صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف میں قدر مشترک ضیاء الحق کی ہمنوائی اور سرپرستی تھا۔ ان دونوں کے مشترکہ ماضی اور سیاسی میراث کی تال میل کو خوشگوار ذاتی تعلق اور مثالی سیاسی نظام کا موجب ہونا چاہیے تھا۔ مگر حکومت سازی کے دوسرے برس سے ہی کھچاؤ اور بدگمانی کے سائے بڑھتے چلے گئے۔ پے در پے ایسے واقعات رونما ہوئے جن کا اختتام سیاسی بحران پر ہوا۔
ان واقعات کے پس پردہ کہیں عوامی نمائندگی کا احساس اور نظام حکومت پر منتخب نمائندوں کے حق کے سیاسی فلسفے کا اثر ضرور موجود تھا۔

نواز شریف نے پیپلز پارٹی سے مفاہمت کے لیے بینظیر بھٹو کو خارجہ امور کی کمیٹی کا چیئرمین بنایا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

نواز شریف کی معاشی پالیسیوں کا محور ڈی نیشنلائزیشن، سرمائے کی آزادانہ نقل و حمل اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے موافق ماحول کی فراہمی تھا۔ وہ اپنی افتاد طبع کے باعث نظم و ضبط کی ادارہ جاتی باریکیوں اور مالیاتی امور کی جکڑ بندیوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔
دوسری طرف قانونی موشگافیوں میں مشاق غلام اسحاق خان نے اس روش کو مالیاتی نظم و ضبط کی خلاف ورزی قرار دے کر روک ٹوک شروع کر دی۔ جس سے طاقت کے دونوں مراکز میں بداعتمادی اور بد دلی جنم لینے لگی۔
دسمبر 1991 میں صدر نے پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔ اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی نے اپنی سابقہ حکومت کی برطرفی کے ذمہ دار کو پارلیمنٹ میں آڑے ہاتھوں لیا۔ ’گو بابا گو‘ کے نعروں میں صدر کے خطاب کے دوران حکومتی اراکین خاموشی سے بیٹھے رہے۔ صدر مملکت کو یہ غیر جانب داری بری طرح کھٹکنے لگی۔
اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد غلام اسحاق خان کے معتمد خاص جلال حیدر زیدی کو وزیراعظم نے منصب سے ہٹا دیا۔ جبکہ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں غلام اسحاق خان کے نفس ناطقہ صاحبزادہ یعقوب علی خان کو خصوصی اہتمام اور اصرار کے ساتھ وزارت خارجہ کے منصب پر فائز رکھا گیا تھا۔
مذکورہ دونوں شخصیات کے ساتھ عزیز اے منشی اور روئیداد خان بھی صدر کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ نواز شریف نے انہیں بھی کاروبار حکومت سے دور رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ 1993 کے حکومتی بحران کے دنوں میں یہ دونوں شخصیات غلام اسحاق خان کو قانونی اور سیاسی قوت فراہم کرنے میں پیش پیش تھی۔ بلکہ روئیداد خان نے پیپلز پارٹی اور غلام اسحاق خان کے درمیان تعلقات کی استواری کی مہم کو ’پراجیکٹ مین ہٹن‘ کا نام دیا۔ یہیں سے وزیراعظم کا غلام اسحاق خان کی انا سے ٹکراؤ کا آغاز ہوا۔

روئیداد خان نے پیپلز پارٹی اور غلام اسحاق خان کے درمیان تعلقات کی استواری کی مہم کو ’پراجیکٹ مین ہٹن‘ کا نام دیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس ٹکراؤ میں شدت اور گہرائی آئندہ صدارتی انتخابات کے بارے میں نواز شریف کے طرز عمل سے پیدا ہوئی۔ 1992 کے اوآخر میں وزیراعظم نے کابینہ کے ممبران کو آئندہ صدارتی امیدوار کے بارے میں بحث اور بیانات سے گریز کرنے کی تلقین کی۔
دوسری بار صدارت کے متمنی غلام اسحاق خان کو اس احتیاط اور احتراز میں سازش کی بو آنے لگی۔
نواز شریف کی کابینہ کے ممبر سرتاج عزیز اپنی کتاب ’ ‘Between Dreams and Realitiesمیں لکھتے ہیں کہ صدر مملکت نے ان سے ملاقات میں تلخ لہجے میں نواز شریف کے طرز عمل پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا اور برملا کہا کہ الہی بخش سومرو اور اعجاز الحق کے علاوہ کوئی بھی ان کے صدارتی امیدوار بننے کے بارے میں بات نہیں کرتا۔
سیاسی تناؤ اور کشیدگی کے ماحول میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز کی اچانک  رحلت نے بھی دونوں بڑوں کے درمیان اختیارات کی کھینچا تانی کو جنم دیا۔ غلام اسحاق خان کے ذاتی دوست اور سینیئر بیوروکریٹ روئیداد خان اپنی کتاب ’پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘ میں لکھتے ہیں کہ آرمی چیف کے جانشین کے لیے غلام اسحاق خان کا انتخاب جنرل فرخ تھے۔ بوجہ نواز شریف کو اس پر اعتراض تھا۔ بالآخر درمیانہ راستہ نکالا گیا اور جنرل عبدالوحید کاکڑ کو یہ منصب سونپا گیا۔ اس اہم تقرری کا اختیار صدر کو آٹھویں ترمیم کے تحت حاصل تھا۔
وزیراعظم نواز شریف اس اختیار کو منتخب عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں دیکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے صدر کو کلی اختیار دینے والی آئینی شقوں میں تبدیلی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔

مسلم لیگ میں نواز شریف کے مخالف دھڑے میں حامد ناصر چٹھہ سب سے نمایاں تھے۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

سنہ 28 فروری 1993 کو سینیٹ میں ان کی تقریر میں اس بات کی خواہش اور اشارہ موجود تھا۔ پیپلز پارٹی سے مفاہمت اور مدد کے لیے انھوں نے بینظیر بھٹو کو امور خارجہ کی کمیٹی کا چیئرپرسن بنا کر اپنا ما فی الضمیر واضح کر دیا تھا۔ آئینی ترمیم کا اشارہ کر کے گویا صدر کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔
سنہ 18 مارچ 1993 کو سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ کے صدر محمد خان جونیجو کی موت نے ایوان صدر کو نواز شریف کے حریفانہ اقدامات کا جواب دینے کا موقع مہیا کر دیا۔
مسلم لیگ میں نواز شریف کے مخالف دھڑے میں حامد ناصر چٹھہ سب سے نمایاں تھے۔ محمد خان جونیجو کے انتقال کے بعد انہوں نے کھل کر سامنے آنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان سمیت تین وزراء نے کابینہ سے استعفی دے دیا۔ ان کے بارے میں تاثر تھا کہ یہ قدم ایوان صدر کی منشا سے اٹھایا گیا تھا، کیوںکہ ان میں غلام اسحاق خان کے داماد انور سیف اللہ بھی شامل تھے۔
نواز شریف نے افتخار گیلانی اور محمود خان اچکزئی کے ذریعے لندن میں مقیم بے نظیر بھٹو سے رابطہ کیا۔ مگر فاروق لغاری اور آفتاب شیر پاؤ، روئیداد خان کے ذریعے غلام اسحاق خان سے رابطہ کیے ہوئے تھے۔
روئیداد خان کے بقول صدر نے انہیں اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانے کی تاکید کی۔ مگر ان دونوں رہنماؤں کا اصرار 58 ٹو بی کے ذریعے نواز شریف حکومت کا خاتمہ تھا۔
وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر میں ٹکراؤ اور کشیدگی کے ماحول میں کچھ رہنماؤں کی کوششوں سے 14 اپریل کو دونوں حکومتی شخصیات کے درمیان ملاقات ہوئی۔ بجائے صورتحال سنبھلنے کے، اس ملاقات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے مشترکہ اخباری بیان کا مسودہ ایوان صدر بھیجا گیا۔ جس کے جواب میں صدر کی طرف سے آٹھ سطری پریس ریلیز جاری کی گئی۔ جس کی زبان اور اعلان نے مزاحمت پر آمادہ نوازشریف کو انتہائی قدم اٹھانے کی طرف دھکیل دیا۔
یہ تھے وہ واقعات اور عوامل جنہوں نے نواز شریف کو 17 اپریل کی تاریخی تقریر کا سامان مہیا کیا۔

فاروق لغاری اور آفتاب شیر پاؤ، غلام اسحاق خان سے رابطے میں تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

عام طور پر وزرائے اعظم کی تقاریر اسلام آباد میں ریکارڈ ہوتی تھیں۔ مگر یہ تقریر انتہائی رازداری سے لاہور میں ریکارڈ کروائی گئی۔ اس روز ٹیلی ویژن کی سکرین پر مفاہمت کے برعکس مزاحمت کا پیغام دینے والے نواز شریف کا چہرہ نظر آیا۔
سنہ 18 اپریل 1993 کے صدارتی حکم نامے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ 28 جون کو سپریم کورٹ نے حکومت بحال کر دی۔ لیکن گھاگ غلام اسحاق خان کے ترکش میں وزیراعظم کو گھائل کرنے کے تیر اب بھی موجود تھے۔ پنجاب اور سرحد کی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل اور پنجاب میں وفاق اور صوبے کے درمیان قانونی چپقلش اور ٹکراؤ نے ملکی سیاست اور نظام حکومت کو بند گلی میں دھکیل دیا۔
جس سے نکلنے کے لیے صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات میں نواز شریف اور غلام اسحاق خان کے استعفے پر اتفاق نے ممکنہ تصادم کا راستہ روک دیا۔
آج  28 برس بعد نواز شریف کے مزاحمت کے بیانیے کے حق و مخالفت میں بحث ہماری سیاسی زندگی کا حصہ ہے۔
نواز شریف ڈکٹیشن نہ لینے کے اعلان کی بھاری قیمت ادا کر کے اقتدار کی راہداریوں سے کم از کم فی الوقت باہر ہو چکے ہیں۔ مگر سیاست کے ایوانوں اور تاریخ کے پیمانوں میں ان کے کردار کا تعین آنے والا وقت کرے گا ۔

شیئر: