شاید وزیر بھی بھول چکے ہوں کہ وہ کس چیز کے وزیر تھے!
وفاقی کابینہ میں تبدیلیوں کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے۔ اس میں سوائے وزارتِ خزانہ کے باقی تبدیلیاں تو انگریزی محاورے کے مطابق ’جتنا چیزیں بدلتی ہیں اتنا ہی وہ اپنی حالت برقرار رکھتی ہیں‘، کی عملی تصویر ہیں۔
اصل میں تو وزرا کے دفتر ہی تبدیل ہوئے ہیں ورنہ یہ بھی واضح نہیں کہ تبدیل ہونے والے وزرا کو انعام ملا ہے یا سزا۔ سابق وزیر اطلاعات شبلی فراز بہرحال اسی طرح خوش و خرم ہیں گویا کسی سخت مشکل سے باہر آئے ہوں۔ عمر ایوب، خسرو بختیار، رزاق داؤد کو شاید اب خود بھی بھول جاتا ہو کہ کس چیز کے وزیر تھے اور اب کس کے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
وفاقی کابینہ میں ایک بار پھر رد و بدل، شوکت ترین وزیر خزانہ مقررNode ID: 557936
-
ایک اور اپریل، ایک اور تبدیلی: کپتان کی ’فیلڈنگ‘ چھ بار تبدیلNode ID: 557951
-
نئے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کون ہیں؟Node ID: 557961
حماد اظہر البتہ بارہویں کھلاڑی کا کردار خوب نبھا رہے ہیں۔ خزانہ، ریونیو، اقتصادی امور، انرجی، ہر پوزیشن پر جاتے ہیں اور سکور کرنے سے پہلے ہی واپس بلا لیے جاتے ہیں۔
وزرات خزانہ تو گویا پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے درمیان گردش کر رہی ہے۔ دو دفعہ پی ٹی آئی نے چلانے کی کوشش کی مگر ایک بار پھر زرداری کے وزیر خزانہ کو واپس مل چکی ہے۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ پیپلز پارٹی کی معاشی پالیسی اب پی ٹی آئی لاگو کرے گی؟ اس کا جواب وزیراعظم ہی دے سکتے ہیں۔
شوکت ترین کی وزیراعظم سے ملاقات میں وہ پی ٹی آئی کی چادر اوڑھے نہیں نظر آئے، یا پھر وہ دل سے ہی پی ٹی آئی کے ممبر بن چکے ہیں۔ وزیراعظم نے یہ خبر ضرور سنائی کہ شوکت ترین شوکت خانم ہسپتال کے بورڈ کے ممبر رہ چکے ہیں۔
حفیظ شیخ صاحب ایک روز چھ سال کے لیے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر سینیٹر بن رہے تھے اور اگلے روز یہ بھی نہیں پتا کہ ملک میں ہیں یا بدیس سدھارے۔
شوکت ترین کا تو فی الحال چھ ماہ کا ٹیسٹ پیریڈ ہے اس کے بعد ان کو مستقل کیا جاتا ہے یا نہیں، یہ بھی واضح نہیں۔
آدھا حکومتی عرصہ گزر چکا ہے۔ جتنی تبدیلیاں حکومتی کابینہ میں ہوئی ہیں اتنی کسی کمپنی میں ہوں تو وہ بھی ڈوبنے کے قریب پہنچ جائے۔ اب تک نہ ٹیم واضح ہے اور نہ ہی پالیسی۔
کرکٹ کی مثال استعمال کرتے ہوئے اب اگر عام زبان میں کہا جائے تو لوگوں کی بس ہو چکی ہے۔ کپتان، ٹیم، اوپننگ بیٹسمین وغیرہ کا بار بار ذکر اب بوجھل بلکہ تکلیف دہ لگنا شروع ہو گیا ہے۔
