Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اوورسیز پاکستانی عدالتی مقدمات میں ’ویڈیو بیان ریکارڈ کروا سکیں گے‘

وسیم اختر نے بتایا کہ الیکٹرانک طریقے سے شکایات رجسٹرڈ کروانے کا نظام چلایا جارہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں اوورسیز کمیشن نے بیرون ملک پاکستانیوں کے عدالتی مقدمات میں ان کو پیش ہوئے بغیر عدالتی کارروائی کا حصہ بننے کے لیے قانون کا مسودہ تیار کیا ہے جو حتمی مرحلے میں ہے۔
اوورسیز کمیشن کے وائس چیئرمین چوہدری وسیم اختر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اب اووسیز پاکستانیوں کو اپنے مقدمات کے لیے گواہی دینے یا اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے خود پاکستان نہیں آنا پڑے گا بلکہ عدالت میں ان کی گواہی ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کی جا سکے گی۔ صرف گواہی ہی نہیں بلکہ کسی بھی قسم کا الیکٹرانک ثبوت عدالت میں پیش کیا جا سکے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس حوالے سے اوورسیز ایکٹ 2020 میں ترامیم کی سفارشات تیار کر لی گئی ہیں جس میں محکمہ قانون اور لاہور ہائی کورٹ کی مشاورت سے تمام تر انتظامات مکمل کر لیے گیے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اوورسیز کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ لوگوں کے کیسز تو چل رہے ہیں ان کو ان کیسز میں اپنے بیان ریکارڈ کروانے کے لیے خود آنا پڑتا ہے۔ ’تو ایسا ایک میکنزم ہونا چاہیے جس میں صرف اس کام کے لیے واپسی کی ضرورت نہ رہے۔ اس سے بغیر وجہ کے مقدمات کی طوالت بھی ختم ہو جائے گی اور کمپیوٹرائزڈ نظام سے شفافیت بھی آئے گی۔‘ 
اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس نئے قانون میں ہر طرح کے مقدمات آئیں گے یعنی فوجداری اور دیوانی دونوں؟ انہوں نے کہا کہ ’جی بالکل اس میں ہر طرح کے مقدمات آئیں گے۔‘
 انہوں نے کہا کہ جیسا کہ بینکنگ کورٹس ہیں نیب کورٹس ہیں اسی طرح اوورسیز کورٹس بھی ہونی چاہییں جس میں صرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے مقدمات سنے جائیں اور ان عدالتوں کے رولز آف بزنس میں الیکٹرانک گواہیاں اور بیانات ویڈیو لنک کے ذریعے لیے جا سکیں گے۔
’اس حوالے سے ہمارا ہوم ورک مکمل ہو چکا ہے ۔ مسودہ تیار ہے اور ایکٹ میں ترامیم جلد ہی کر لی جائیں گی۔‘
وسیم اختر نے بتایا کہ اس سے پہلے الیکٹرانک طریقے سے شکایات رجسٹرڈ کروانے کا نظام چلایا جا رہا ہے۔

وسیم اختر کا کہنا ہے کہ بینکنگ کورٹس اور نیب کورٹس کی طرح اوورسیز کورٹس بھی ہونی چاہیں۔ (فوٹو: وزارت اوورسیز پاکستانیز)

’اب یہ اس سے اگلا سٹیپ ہے۔ یعنی شکایت تو درج ہو گئی لیکن اس شکایت کا حل اگر موجودہ نظام کے مطابق ہو گا تو صورت حال ویسی ہی ہوگی جیسے پہلے ہے لہذا اب ہم ایک سپیشل کورٹس کی طرف جارہے ہیں۔‘
حکومتی اعدادو شمار کے مطابق نئے ایکٹ کے لاگو ہونے سے اب تک پنجاب میں کل 22 ہزار900 اوورسیز پاکستانیز کی شکایات آئی ہیں جن میں سے 14 ہزار 240 شکایت حل کر لی گئی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اڑھائی ہزار سول کورٹ کے معاملات جبکہ صرف 28 فوجداری معاملات سامنے آئے۔
کمیشن کے چیئرمین وسیم اخترسمجھتے ہیں کہ ’قانون تو اس وقت بھی موجود ہے اور صرف ایک ہزار اکیاسی ایسے مقدمات میں جن کو ایک سال سے زیادہ وقت لگا ہے اور انھی کیسز کی بنیاد پر یہ بات سمجھ آئی کہ ان میں تاخیر اسی وجہ سے ہوئی کہ ان میں ان لوگوں کا خود یہاں ہونا بہت ضروری ہے۔ تو پھر ہم اس طرف گئے کہ اس مسئلے کو بھی حل کیا جائے۔ اور لوگوں کو اس بات سے مبرا کیا جائے کہ وہ یہاں آئیں یا نہ آئیں ان کے کیسزکے فیصلوں میں یہ بات رکاوٹ نہ بنے۔‘
تو کیا پاکستان کا قانون الیکٹرانک گواہی کی اجازت دے گا کہ شکایت کنندہ باہر ہی بیٹھ کر ہی شکایت درج کروائے اور بیان بھی ریکارڈ کروائے اور فیصلہ بھی ہو جائے؟ اس حوالے سے پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت نے اردو نیوزسے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس حوالے سے تو ہمیں ترامیم کی ضروت ہوں گی اور اس کے لئے سپیشل کورٹس کی تجویز آئی ہے جس پر سفارشات مرتب کر لی گئی ہیں۔‘

اعدادو شمار کے مطابق اوورسیز ایکٹ کے لاگو ہونے سے اب تک پنجاب میں کل 22 ہزار900 اوورسیز پاکستانیز کی شکایات آئیں ہیں (فوٹو: وزارت اوورسیز پاکستانیز)

انہوں نے بتایا کہ ’اوورسیز کمیشن اور وزارت قانون تو اس حق میں ہیں کہ یہ ترامیم کر لی جائیں لیکن ابھی ہائی کورٹ بھی ایک فریق ہے کیونکہ ججز کی تعیناتی تو باقی معاملات تو ہائی کورٹ ہی دیکھے گی۔ سو اس حوالے سے حتمی ترامیم اسمبلی میں پیش کرنے سے پہلے ابھی ہماری مزید مشاورت جاری ہے اور ان تمام پہلووں پر غور کر رہے ہیں۔‘
پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ ’اگر تمام سٹیک ہولڈرز کا اس پر اتفاق ہو جاتا ہے تو ہو پھر یہ ترامیم اسمبلی میں پیش کر دی جائیں گی۔ اور منظور ہونے پر اوورسیز پاکستانیوں کے لیے اپنی عدالتیں وجود میں آجائیں گی اور وہ ان کے ہر طرح کے مقدمات سننے کا اختیار رکھیں گی۔‘

شیئر: