غار میں 40 آزمائشی دن گزارنے کے بعد فرانسیسی رضاکاروں کی واپسی
غار میں رہنے کے اس تجربے کو ’ڈیپ ٹائم‘ کا نام دیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)
فرانسیسی رضاکاروں کا ایک گروپ دنیا سے الگ تھلگ رہنے کے بعد ایک غار سے سنیچر کو نکلا جہاں انہوں نے 40 دن رہنے کا تجربہ کیا تاکہ اس بات کا پتا لگایا جا سکے کہ انسان کس حد تک تنہائی کے ماحول میں خود کو ڈھال سکتا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق زیر زمین الگ تھلگ رہنے کے تجربے کے دوران شریک افراد نے جن کی عمریں 27 سے 50 برس کی تھیں، انہوں نے گھڑیاں، فونز، اور قدرتی روشنی کا استعمال ترک کر دیا تھا۔
گروپ کے افراد ایک پیڈیل بائیک کے ساتھ اپنی بجلی خود بناتے اور ان 45 میٹر نیچے زیر زمین کنویں سے پانی حاصل کرتے۔
غار میں رہنے کے اس تجربے کو ’ڈیپ ٹائم‘ کا نام دیا گیا۔
ہیومن آڈپٹیشن انسٹی ٹیوٹ کے بانی کرسچیئن کلاٹ نے کہا کہ ’اس تجربے کا مقصد بیرونی دنیا سے کٹ کر انسان کے ڈھلنے کی قابلیت کو ٹیسٹ کرنا تھا۔‘
’ان سوالوں کے جواب اور جلدی چاہییں، اور ایک ایسے وقت میں جلدی ملنے چاہییں جب کورونا وائرس کی وبا کے باعث بڑے پیمانے پر لوگوں کو تنہائی کا سامنا ہے۔‘
تاہم جب کچھ محققین اس پروجیکٹ میں شامل ہوئے تو کچھ سائنس دانوں نے تجربے کے سیٹ اپ پر تنقید کی۔
فرانس میں کوگنیٹو نیورو سائنس لیب کے سربراہ ایتیئن کوئسچلان کا کہنا ہے کہ ’یہ تحقیق بہت اہمیت کی حامل ہے۔‘
رضاکاروں کی دماغی صلاحیت اور قابلیت پر ڈیٹا غار میں داخل ہونے سے پہلے اکٹھا کر لیا گیا تھا تاکہ رضاکاروں کی واپسی کے بعد اس کا موازنہ کیا جا سکے۔
لیکن دیگر ماہرین کی طرح سی این آر ایس حکومتی ریسرچ سینٹر اور انسٹی ٹیوٹ کے ماہر پیئار ماری لیڈاؤ کا کہنا ہے کہ اس تجربے میں کوئی ’کنٹرول گروپ‘ نہیں تھا۔
سائنٹیفک سٹڈیز میں دو مختلف گروپوں کا موازنہ ایک اہم جز ہے۔
اس تجربے کے شریک رضاکار اپنے تجربات کے بارے میں ایک پریس کانفرنس کے ذریعے آگاہ کریں گے۔