وفاقی کابینہ کے اراکین بیرسٹر فروغ نسیم اور شہزاد اکبر نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق سربراہ بشیر میمن کی جانب سے لگائے جانے والے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ حکومت کی جانب سے جسٹس فائز عیسیٰ اور اپوزیشن رہنماؤں پر مقدمات قائم کرنے اور گرفتار کرنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا گیا۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کے مطابق ’انہوں نے بشیر میمن کے ساتھ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق کسی بھی معاملے پر بات نہیں کی۔‘
منگل کو اپنی ٹویٹ میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اعظم خان، شہزاد اکبر اور بشیر میمن کبھی ایک ساتھ میں میرے دفتر نہیں آئے۔ اعظم خان صرف ایک بار قانونی اصلاحات پر بات کرنے میرے دفتر آئے۔‘
مزید پڑھیں
-
ملک میں میڈیا آزاد نہیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰNode ID: 538326
-
چینی مافیا واٹس ایپ پر قیمت طے کرتی ہے: شہزاد اکبرNode ID: 553581
-
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرثانی کی درخواست منظورNode ID: 560876
فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم عمران خان، اعظم خان یا شہزاد اکبر نے کبھی مجھ سے یہ ذکر نہیں کیا کہ انہوں نے جسٹس عیسیٰ کے بارے میں بشیر میمن کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت کی ہے۔‘
دوسری جانب وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے سابق ڈی جی ایف آئی اے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’بشیر میمن کو قاضی فائز کے معاملے پر وزیراعظم یا مجھ سے ملاقات کے لیے کبھی نہیں بلایا گیا، بشیر میمن اور وزیر قانون کے درمیان بھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔‘
شہزاد اکبر نے واضح کیا کہ ’وفاقی کابینہ نے ایف آئی اے کو صرف بغاوت کا ایک مقدمہ بھیجا تھا، بشیر میمن کو کسی مخصوص فرد کے خلاف کوئی کیس شروع کرنے کے لیے نہیں کہا تھا۔‘
انہوں نے بشیر میمن کو ان کے الزامات پر قانونی نوٹس بھی بھیج دیا ہے۔
خیال رہے کہ منگل کو نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بشیر میمن نے الزام عائد کیا تھا کہ ’وزیراعظم عمران خان اور ان کے وزرا فروغ نسیم اور شہزاد اکبر نے ان پر جسٹس فائز عیسیٰ کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کارروائی شروع کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔‘
یاد رہے کہ سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کو موجودہ حکومت نے ان کے عہدے کی مدت ختم ہونے سے ایک ماہ قبل جبری رخصت پر بھیج دیا تھا جس کے بعد انہوں نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
