پاکستان کی سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں نظرثانی درخواستیں منظور کر لی ہیں۔ سپریم کورٹ نے قاضی فائز عیسٰی کی اہلیہ اور بچوں کی جائیدادوں کا معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کا اپنا حکم نامہ تبدیل کر دیا ہے جس کے نتیجے میں ان کے خلاف ہونے والی ایف بی آر کی کارروائی اور رپورٹ کالعدم ہوگئی ہے۔
مزید پڑھیں
-
پاکستان کی سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا موبائل فون ہیکNode ID: 537786
-
ایف بی آر کی رپورٹ کو ریاستی راز بنا کر رکھا:جسٹس فائز عیسیٰNode ID: 558801
سوموار کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں نظرثانی درخواستوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
یہ فیصلہ چار کے مقابلے میں چھ ججوں کی اکثریت رائے سے ہوا ہے۔
یاد رہے کہ 19 جون 2020 کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے تین کے مقابلے میں سات ججز کی اکثریت سے فیصلہ سنایا تھا۔
اس فیصلے کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، ان کی اہلیہ اور دیگر نے نظرثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں۔
پیر کے روز جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی نظر ثانی کیس کی سماعت کی۔
وفاقی حکومت کے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’عدالت کیس ایف بی آر کو نہ بھجواتی تو وفاقی حکومت نظر ثانی اپیل دائر کرتی، حکومت کیس ایف بی آر کو بھجوانے کا دفاع کرنے میں حق بجانب ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس میں عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہو چکا ہے۔ عمل درآمد کے بعد فیصلہ واپس نہیں لیا جا سکتا۔‘
’سپریم جوڈیشل کونسل کو مواد کا جائزہ لینے سے نہیں روکا جا سکتا اور آرٹیکل 211 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج نہیں ہو سکتی۔‘
اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ صرف غیر معمولی حالات میں جوڈیشل کونسل میں مداخلت کر سکتی ہے۔ ’عدالت نے مجھ سے تین سوالات کے جواب مانگے تھے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/April/36516/2021/1008011-1115963674.jpg)
جسٹس عمر عطا بندیال نے حکومتی وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ ان تین سوالات کا جواب مثبت دیں گے تو جسٹس فائز عیسیٰ جواب دہ ہیں۔‘
’اگر آپ ان تین سوالات کے جوابات منفی دیں گے تو بات ختم۔۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے ان تین سوالات کے جوابات دینے سے انکار کیا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’جو جائیدادیں خریدی گئیں ان کے ذرائع کی تصدیق ایف بی آر کا کام ہے۔ موجودہ کیس میں تحقیقات سرینا عیسیٰ کے خلاف شروع ہوئیں۔ اس معاملے کو دبانا اس کو زبردستی ختم کرنے کے مترادف ہے۔‘
جسٹس عمر بندیال نے یہ بھی کہا کہ ’عدالتی ساکھ کا تقاضا ہے کہ اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کہتے ہیں کہ وہ سرینا عیسیٰ کی جائیدادوں کے لیے جواب دہ نہیں۔‘
اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’آپ میرے منہ میں الفاظ ڈال کر بات نہ کریں۔ میں نے سوالات کا جواب دینے سے انکار نہیں کیا۔ میں نے صرف سوالات پر اعتراض اٹھایا تھا۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نشاندہی کی کہ ’عامر رحمان میرے ٹیکس یا فنانشل ایڈوائزر نہیں ہیں۔ حکومتی وکیل سے ایسا سوال نہیں پوچھنا چاہیے تھا۔ جان بوجھ کر نیا مواد عدالتی کارروائی کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے استفسار کیا کہ ’کیا جسٹس عمر عطا بندیال آپ شکایت کنندہ ہیں؟ ایسے سوالات سے آپ کوڈ آف کنڈکٹ اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔‘
’جسٹس عمر عطا بندیال حکومتی وکیل کے منہ میں الفاظ ڈال رہے ہیں۔ شاید پھر سے کوشش ہو رہی ہے کہ وقت ضائع کیا جائے۔ ایف بی آر کی رپورٹ نظر ثانی درخواستوں کے بعد آئی ہے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/April/36516/2021/000_np0v0-scaled.jpg)