انڈیا سے ’خطرناک مواد‘ لے کر بحری جہاز پاکستان کیسے پہنچا؟
انڈیا سے ’خطرناک مواد‘ لے کر بحری جہاز پاکستان کیسے پہنچا؟
بدھ 26 مئی 2021 17:13
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
پاکستانی حکام نے انڈیا سے آنے والے اس ناکارہ بحری جہاز کے ملک میں داخل ہونے کے معاملے کی تحقیقات شروع کردی ہیں جس میں بھاری مقدار میں انسانی صحت کے لیے مضر کیمیائی مواد موجود ہے۔
انٹرپول کی جانب سے خبردار کرنے کے باوجود یہ بحری جہاز توڑنے کے لیے 30 اپریل کو بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے ساحلی شہر گڈانی پہنچا تھا۔
معاملہ سامنے آنے کے بعد انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی نے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں جہاز کے توڑنے کے کام پر پابندی عائد کرتے ہوئے اس مقام کو سیل کر دیا ہے جہاں مذکورہ جہاز لنگر انداز ہے۔
’ایف ایس اوریڈینٹ‘ نامی اس بحری جہاز کو انڈیا اور بنگلہ دیش نے داخلے کی اجازت نہیں دی تھی کیونکہ اس پر مرکری سمیت 1500 ٹن دیگر خطرناک اور زہریلا مواد موجود تھا جو انسانی صحت، آبی حیات اور ماحول کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب دستاویزات کے مطابق ’انٹرپول نے 22 اپریل کو ایک ای میل کے ذریعے جہاز میں خطرناک مادے کی موجودگی اور پاکستان روانگی سے متعلق پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو خبردار کیا تھا۔‘
انٹرپول کی اطلاع کے بعد پاکستان کی وزارت دفاع، میری ٹائم اور وزارت ماحولیاتی تبدیلی کے ذیلی اداروں میں خطوط کا تبادلہ جاری تھا کہ ’اس دوران جہاز پاکستان پہنچ گیا۔‘
تیل اور کیمیکل کی نقل و حمل کی غرض سے انڈونیشیا کی نٹونا گیس فیلڈ کے لیے کام کرنے والا یہ جہاز 38 سال پرانا ہے اور اپنی عمر پوری کرنے بعد سکریپ کرنے کے لیے گذشتہ سال مئی میں انڈونیشیا سے بنگلہ دیش آیا تھا۔
مگر جہاز پر خطرناک مواد کی موجودگی اور ماحولیات کے لیے کام کرنے والے اداروں کے احتجاج کی وجہ سے بنگلہ دیش نے اسے داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ جس کے بعد یہ جہاز نومبر سنہ 2020 میں انڈین شہر ممبئی لے جایا گیا مگر وہاں بھی انسانی جانوں کے تحفظ کی خاطر اسے توڑنے کی اجازت نہیں ملی۔
دستاویزات کے مطابق بعد میں جہاز کا نام ایف ایس اوریڈینٹ سے بدل کر ’چیریش‘ رکھ دیا گیا اور دیوان شپ ری سائیکلنگ نامی پاکستانی کمپنی نے اسے پاکستان امپورٹ کیا۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق متعلقہ اداروں کی اجازت سے پہلے ہی گڈانی کے ساحل پر موجود جہاز کا نال کاٹنے اور اس سے خطرناک کیمیائی مواد اتارنے کا کام شروع کر دیا گیا تھا۔ مزدور مرکری ملا ہوا تیل جہاز سے اتار کر ڈرموں میں بھر رہے تھے۔
اردو نیوز کو حاصل ہونے والی تصاویر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جہاز سے اتارا جانے والا سلیج ساحل پر موجود ہے۔
تاہم انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی بلوچستان(ای پی اے) کے لسبیلہ میں تعینات ڈپٹی ڈائریکٹر عمران سعید کاکڑ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جہاز کو توڑنے کا کام ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ صرف ساحل پر جہاز کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اس کے نال کو کاٹ کر باندھنے کی اجازت دی گئی تھی جو ساحل پر پہنچنے والے ہر جہاز کو دی جاتی ہے۔‘
وزارت ماحولیاتی تبدیلی نے 18 مئی کو ای پی اے کو کارروائی کے لیے خط لکھا تھا مگر ایک ہفتے بعد بھی انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی نے اس وقت تک کارروائی نہیں کی جب تک میڈیا میں معاملے کو رپورٹ نہیں کیا گیا۔
کارروائی میں تاخیر سے متعلق سوال پر انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر عمران سعید کاکڑ نے بتایا کہ ’کورونا کی وجہ سے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ این سی او سی کے فیصلے کے تحت 8 مئی سے 16 مئی تک بند رہا، اس لیے نہ تو جہاز کا انسپکشن کیا گیا اور نہ ہی اسے کوئی این او سی جاری کیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’منگل کو جہاز پر خطرناک مواد کی موجودگی کی اطلاع پر گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کے پلاٹ نمبر 58 (جہاں جہاز لنگر انداز ہے) کو سیل کردیا گیا ہے۔ ای پی اے کی ٹیم نے جہاز میں موجود فضلے سے نمونے لے کر ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری بجھوادیئے ہیں۔
عمران سعید کاکڑ کا جہاز پر خطرناک مواد کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’اگر جہاز پر موجود مواد میں مرکری کی مقدار 200 مائیکرو گرام فی کلو گرام یا اس سے زائد پائی گئی تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘
خیال رہے کہ انٹرپول کی جانب سےپاکستانی حکام کو بجھوائے گئے خط میں بنگلہ دیشی ادارے کی رپورٹ کا بھی حوالہ دیا گیا تھا۔
اس رپورٹ کے مطابق جہاز پر موجود مواد میں مرکری کی مقدار ایک کلو گرام میں 395 مائیکرو گرام پائی گئی جو متعین کردہ حد سے دگنی ہے۔
ماہر ماحولیات اورسابق ڈائریکٹر انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی بلوچستان محمد خان کے مطابق ’گڈانی میں سکریپ کے لئی لائے جانے والے بحری جہازوں پر موجود فضلے میں مرکری، کرومیئم، آرسینک، کیڈمیئم اور لیڈ سمیت دیگر خطرناک کیمیکل موجود ہوتا ہے۔ مگر ان سب میں مرکری یا پارہ سب سے خطرناک ہے۔ یہ پانی میں بھی حل نہیں ہوتا۔‘
’یہ انسانی دماغ، پھیپھڑوں، جلد اور دیگر اعضا پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کے نہ صرف انسانوں بلکہ پرندوں، جانوروں اور آبی حیات پر بھی نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کسی بحری جہاز میں مرکری کی مقدار موجود ہوں تو جہاز کے پرزے الگ کرنے والے مزدوروں کو بھی شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔‘
اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر لسبیلہ حسن وقار چیمہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’لنگر انداز ہونے کے ساتھ ہی کمپنی سے جہاز کے کیمیکل اور خطرناک مادوں سے پاک ہونے کا سرٹیفکیٹ مانگا جاتا ہے۔ اس کے بعد جہاز کا معائنہ اور کام کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس بات کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہے کہ خطرناک مواد سے بھرا جہاز کس طرح گڈانی پہنچا۔
’اس سلسلے میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔ کمیٹی نے جائے وقوعہ کا دورہ کرکے متعلقہ اداروں سے رپورٹس طلب کر لی ہے۔‘
ڈپٹی کمشنر لسبیلہ کا مزید کہنا تھا کہ متعلقہ کمپنی کی ورکنگ سائٹ کو اتنے دنوں بعد کیوں سیل کیا گیا۔ اس سمیت دیگر سوالات کا جواب بھی تحقیقات میں حاصل کیا جائے گا۔
دوسری جانب پاکستان شپ بریکرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری محمد عمیر عیسانی کا کہنا ہے کہ ’وزارت ماحولیاتی تبدیلی نے ہمیں تاخیر سے اطلاع دی۔ یہ جہاز ہمیں خط ملنے سے پہلے ہی گڈانی پہنچ چکا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’19 مئی کو خط ملنے کے فوری بعد ہم نے مراسلے کے ذریعے اپنے ارکان کو مذکورہ جہاز میں خطرناک مواد کی موجودگی کی اطلاع دی بلکہ انہیں اس جہاز سے متعلق کسی بھی سرگرمی میں حصہ لینے سے روک دیا۔‘
دیوان شپ ری سائیکلنگ بریکنگ کمپنی کے لیے ممبئی سے جہاز خریدنے والے ایجنٹ جاوید اقبال نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ممبئی سے کرائے گئے ٹیسٹ میں جہاز میں مرکری کی مقدار متعین کردہ حدود سے کم پائی گئی۔ ہم قانونی تقاضے پورے کر کے ہی جہاز پاکستان لائے ہیں۔‘
گڈانی شپ بریکنگ یارڈ
گڈانی شپ بریکنگ یارڈ انڈیا اور بنگلہ دیش کے بعد دنیا میں ناکارہ ہونے والے بحری جہازوں کو توڑ کر لوہے میں تبدیل کرنے والا سب سے بڑا مرکز ہے۔
132 پلاٹس پر مشتمل اس شپ بریکنگ یارڈ میں دنیا بھر سے ناکارہ ہونے والے جہاز توڑنے کے لئے لائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں خام لوہے کی ضروریات کا بڑا حصہ یہاں سے پورا ہوتا ہے۔
یہاں بیک وقت 25 سے 30 ہزار مزدور بھی کام کرتے ہیں۔
گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں حفاظتی انتظامات کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے ماضی میں کئی حادثات ہو چکے ہیں۔
نومبر سنہ 2016 میں گڈانی کے ساحل پر جہاز کو سکریپ کرنے کے دوران آگ لگنے سے 30 سے زائد مزدور ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ جنوری سنہ 2017 میں بھی ایک حادثے میں چھ مزدوروں کی موت ہوئی تھی۔
دونوں حادثات کی وجہ جہاز کو سکریپ کرنے سے قبل صاف نہ کرنے اور بھاری مقدار میں خام تیل کی موجودگی تھی۔