اس سے قبل برلن نے اپنے نو آبادیاتی حکام کے ہاتھوں نمیبیا میں ظلم و بربریت کو تسلیم کیا تھا تاہم انہوں نے براہ راست ازالے سے انکار کیا۔
جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ان واقعات کو آج کے تناظر میں باضابطہ نسل کشی کے طور پر دیکھیں گے۔‘
جرمن وزیر خارجہ نے کہا کہ ’جرمنی کی تاریخی اور اخلاقی ذمے داری کی روشنی میں ہم نمیبیا اور متاثرین کی اولاد سے ظلم اور بربریت پر معافی مانگیں گے۔‘
نمیبیا کے ساتھ جرمنی کی بات چیت تقریباً پانچ برس تک جاری رہی۔
ہائیکو ماس کے بیان کے مطابق متاثرین کو بے پناہ تکالیف پہنچانے کا اعتراف کرنے پر جرمنی ایک اعشاریہ ایک بلین یوروز کے مالی پروگرام کے تحت نیمیبیا کی ’تعمیر نو اور ترقی‘ میں مدد کرے گا۔
مذاکرات کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ رقم 30 سال کی مدت میں ادا کی جائے گی اور اس سے بنیادی طور پر ہیریرو اور ناما کی اولاد فائدہ اٹھائے گی۔
برلن کی 1884 سے 1915 کی حکمرانی کے دوران نمیبیا کو جرمن جنوب مغربی افریقہ کہا جاتا تھا۔ 1990 میں آزادی حاصل کرنے سے پہلے نمیبیا 75 برس تک جنوبی افریقہ زیر حکمرانی رہا۔
1904 میں مقامی افراد کو ان کے مویشیوں اور زمین سے محروم کیا گیا تو وہ حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تاہم ان کی بغاوت کو کچل دیا گیا۔
اگست 1904 میں واٹر برگ کی لڑائی میں تقریباً 80 ہزار ہیریرو، جس میں بچے اور خواتین بھی شامل تھے، اپنا علاقہ چھوڑا۔ جرمن فوجوں نے ان کا تعقب کیا۔ اس میں صرف 15 ہزار افراد بچ گئے تھے۔
جرمن جنرل لوتھر وان تروتھا کو بغاوت ختم کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا، اس نے مقامی لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔
1904 سے 1908 کے درمیان کم از کم 60 ہزار ہیریروز اور دس ہزار کے قریب ناما کو مارا گیا۔
نوآبادیاتی سپاہیوں نے بڑے پیمانے پر مقامی افراد کو پھانسی پر چڑھایا۔ مرد، خواتین اور بچوں کو صحرا میں بھیجا گیا جہاں وہ پیاس سے مر گئے اور شارک جزیرے پر ایک بدنام زمانہ کنسنٹریشن کیمپ بھی قائم کیا۔
نو آبادیاتی دور میں ظلم اور بربریت کی وجہ سے برلن اور ونڈہوک کے درمیان تعلقات ناخواشگوار رہے۔
نمیبیا کے صدر کے ترجمان الفریڈو ہینگری نے کہا ہے کہ ’20 ویں صدی میں نو آبادیاتی قبضے کے دوران جنوب مغربی افریقی ملک میں جرمنی کی جانب سے نسل کشی کا اعتراف صحیح سمت کی جانب پہلا قدم ہے۔‘