Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں گذشتہ سال گدھوں اور بھیڑوں کی تعداد میں اضافہ

سروے کے مطابق گذشتہ دو سال میں خچروں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں دیکھنے میں آیا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
جمعرات کو اسلام آباد میں جاری کیے جانے والے قومی اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں گذشتہ سال کے دوران گدھوں کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ بھینسوں کی تعداد میں 12 لاکھ اور بھیڑوں کی تعداد میں چار لاکھ کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔
 اقتصادی سروے 2021-2020 وزیرخزانہ شوکت ترین نے ایک پریس کانفرنس میں پیش کیا۔
سروے میں پاکستان میں گذشتہ سال لائیو سٹاک کے اعدادوشمار بھی بتائے گئے ہیں جن کے مطابق گذشتہ سال ملک میں گدھوں کی تعداد 56 لاکھ ہو گئی ہے۔ سروے میں بتایا گیا کہ 2018 میں جب موجود حکومت نے اقتدار سنبھالا تو ملک میں گدھوں کی تعداد 54 لاکھ تھی۔مزید پڑھیں
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق 2018 میں ملک میں بھینسوں کی تعداد چار کروڑ تھی جو اب چار کروڑ 24 لاکھ ہو چکی ہے۔
اسی طرح 2018 میں ملک میں بھیڑوں کی تعداد تین کروڑ نوے لاکھ تھی جو اب بڑھ کر تین کروڑ 16 لاکھ ہو گئی ہے۔
سروے کے مطابق گذشتہ دو سالوں کے دوران ملک میں خچروں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں دیکھنے میں آیا اور اس وقت ان کی تعداد ملک بھر میں صرف دو لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔
یاد رہے کہ اکنامک سروے میں جانوروں کی تعداد کا تخمینہ 2006 اور 1996 کی گنتی میں اضافہ کے حساب سے لگایا جاتا ہے اور اس میں جانوروں کی اصل تعداد ہر سال نہیں گنی جاتی۔
سروے کے مطابق ملک میں اونٹوں کی تعداد بھی دو لاکھ کے قریب ہے جبکہ گھوڑوں کی تعداد چار لاکھ کے قریب بتائی جاتی ہے۔

2018 میں ملک میں بھیڑوں کی تعداد تین کروڑ نوے لاکھ تھی جو اب بڑھ کر تین کروڑ 16 لاکھ ہو گئی ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

جمعرات کو اسلام آباد میں اقتصادی سروے 2021-2020 پیش کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ جب کورونا سامنے آیا تو اس وقت تقریباً 5 کروڑ 60 لاکھ افراد کام کر رہے تھے جن کی تعداد کم ہو کر تین کروڑ 50 لاکھ پر آگئی یعنی تقریباً دو کروڑ افراد بے روزگار ہوئے۔
اقتصادی سروے کی لانچنگ کی تقریب سے خطاب کرتے وزیرخزانہ شوکت ترین نے کہا کہ پچھلے بجٹ کے وقت حکومت کا اندازہ دو اعشاریہ ایک فیصد شرح نمو کا تھا جبکہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا اندازہ اس سے کم تھا تاہم حکومت کی جانب سے جو فیصلے کیے گئے جن میں زراعت اور تعمیراتی شعبوں کے لیے مراعات شامل تھیں جس کی وجہ سے شرح نمو بہتر ہوئی۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’کپاس کی فصل خراب ہونے کے باعث اندیشہ یہ تھا کہ اس کی شرح نمو شاید منفی میں چلی جائے تاہم وہ دو اعشاریہ 77 فیصد تک رہی، اسی طرح دوسری فصلوں گندم، چاول، گنے اور مکئی کی ریکارڈ پیداوار ہوئی۔

شیئر: