وزیراعظم نریندر مودی نے جموں و کشمیر کے سیاسی رہنماؤں سے دہلی میں ملاقات کی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
کشمیر کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ اس مسئلے کا کوئی آسان حل نہیں ہے۔ انڈیا میں کانگریس کی حکومت ہو یا بی جے پی کی، من موہن سنگھ جیسے خاموشی پسند رہنما ہوں یا نریندر مودی جیسے مسکیولر شخصیت کے مالک، ان کا انداز بھی مختلف ہے اور حکمت عمل بھی، لیکن گھوم پھر کر بات وہیں کی وہیں رہتی ہے۔
بس کبھی کچھ اچھے دور آتے ہیں اور کچھ خراب۔
دو سال پہلے جب بی جے پی کی حکومت نے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو ساتھ ہی ریاست کی تقریباً پوری سیاسی قیادت کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان میں محبوبہ مفتی بھی شامل تھیں جن کے ساتھ بی جے پی نے مل کر ریاست میں مخلوط حکومت بنائی تھی، اور عمر عبداللہ (اور ان کے والد فاروق عبداللہ) بھی جو اٹل بہاری واجپئی کی حکومت میں وزیر تھے۔ ان سمیت درجنوں سرکردہ رہنماؤں نے انتہائی سخت قوانین کے تحت لمبا عرصہ اسیری میں گزارا۔
حکومت کا پیغام یہ تھا کہ ان لوگوں سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ ہی مسئلے کی جڑ ہیں اس کا حل نہیں۔ اس لیے نیا کشمیر بنانے کی بات ہوئی جس میں پرانی قیادت کے لیے کوئی رول نہیں تھا۔ اگر ہوتا تو انہیں جیل نہ بھیجا جاتا۔
لیکن دو سال میں ایسا کیا ہوا کہ بی جے پی کی حکومت، جو کبھی کوئی فیصلہ واپس نہیں لیتی، کشمیر کی سیاسی قیادت سے بات کرنے کے لیے تیار ہوگئی؟ وہ بھی بغیر کسی پیشگی شرط۔
اس کی بنیادی وجہ شاید یہ ہے کہ ریاست میں ایک نئی قیادت کھڑی کرنے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں۔ جمہوریت کے لیے یہ اچھی خبر ہے اور کمشیر کے لیے بھی کیونکہ آپ کسی کٹھ پتلی نظام یا قیادت سے ڈیل تو کرسکتے ہیں لیکن کسی بھی ڈیل کا اس وقت تک فائدہ نہیں ہوسکتا جب تک اسے عوام کی حمایت حاصل نہ ہو۔
تو شاید حکومت کو لگا کہ بات کرنی ہے تو انہیں لوگوں سے کرنا پڑے گی جن سے بات کرنےکا پہلے اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
کشمیر میں دراصل الیکشن ہونے ہیں اور الیکشن سے پہلے وہاں انتخابی حلقوں کی ازسرنو حد بندی کرنے کا منصوبہ ہے۔ مبصرین کا خیال یہ ہے کہ حد بندی کچھ اس انداز میں کی جائے گی کہ بی جے پی کے تنہا اقتدار میں آنے کی راہ ہموار ہوجائے۔ فی الحال، ریاستی اسمبلی میں وادی کا پلڑا بھاری ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔
یہ تھیوری نروپما سبرامنیم کی ہے جو ایک سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار ہیں۔ انڈین ایکسپریس میں انہوں نے لکھا ہے کہ وادی میں سیاسی عمل کے دوبارہ آغاز کا تعلق نہ افغانستان کی صورتحال سے ہے اور نا چین کے ساتھ تنازع سے اور نہ ہی امریکی صدر جو بائیڈن کے اس مشورہ سے کہ کشمیر میں حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کی جائے۔ اس کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں حد بندی کی ایکسرسائز میں شامل ہوجائیں۔
ان کا خیال ہے کہ وفاقی حکومت کی پیش قدمی کا تعلق اتر پردیش جیسی بڑی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات سے ہو سکتا ہے جن کے نتائج آئندہ پارلیمانی انتخابات پر اثر انداز ہوں گے۔ اتر پردیش کے الیکشن کو ایک طرح سے اگلے پارلیمانی انتخابت کے سیمی فائنل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ کشمیر میں حکومت جو بھی حکمت عملی اختیار کرے گی اور اس کے مثبت یا منفی جو بھی مضمرات ہوں گے، ان کی گونج پورے ملک میں سنائی دے گی۔
جو لوگ انڈیا کی سیاست کو سمجھتے ہیں وہ آپ کو بتائیں گے یہاں بڑے فیصلے کرنا اتنا مشکل نہیں ہے جتنا کہ انہیں واپس لینا۔ کیونکہ بڑے فیصلے عوام کے کسی طبقے کو خوش کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں اور دوسری کوئی حکومت فیصلہ بدل کر کے اس طبقے کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔
مثال کے طور پر درج فہرست ذات و قبائل کے لیے ریزرویشن کی پالیسی اور پھر اس میں دیگر پسماندہ طبقات کو شامل کرنے کا فیصلہ۔ اس پالیسی سے ایسے طبقوں کے لیے بھی زندگی کی دوڑ میں بھاگنے کا راستہ کھلا جو صدیوں سے قومی دھارے کو صرف کنارے سے ہی دیکھا کرتے تھے۔ لیکن بہت سے لوگ مانتے ہیں کہ اب اس پالیسی میں ترامیم اور اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن ووٹروں کے اتنے بڑے حلقے کو ناراض کرنے کا خطرہ کون مول لے سکتا ہے؟
اسی طرح کشمیر میں جو ہو گیا وہ ہو گیا۔ یہ سوچنا کہ آئین کی دفعہ 370، جس کے تحت کشمیر کو ایک خصوصی درجہ حاصل تھا، دوبارہ بحال کی جائے گی خیالی پلاؤ پکانے سے زیادہ کچھ نہیں ہے، اس کا امکان تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی مقدمات دائر ہیں لیکن ابھی ان کی سماعت بھی شروع نہیں ہوئی ہے۔ عدالت ہی کوئی فیصلہ سنا دے تو الگ بات ہے لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ کل کو کوئی غیر بی جے پی حکومت آئے گی اور کہے گی کہ بی جے پی کا فیصلہ غلط تھا اور ہم کشمیر کا خصوصی درجہ بحال کر رہے ہیں۔
ویسے بھی انڈیا میں کانگریس سمیت سبھی اہم سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے پر جب تنقید کی بھی تو یہ نہیں کہا کہ فیصلہ غلط تھا بلکہ انہوں نے حکومت کے طریقہ کار کو زیادہ نشانہ بنایا۔
کشمیر کی سیاسی قیادت کو بھی اس بات کا اندازہ تو ہوگا ہی۔ فی الحال ان کا مطالبہ یہ ہے کہ کشمیر کو دوبارہ ریاست کا درجہ دیا جائے جو آرٹیکل 370 کے ساتھ ہی ختم کردیا گیا تھا اور ریاست کو مرکز کے زیرانتظام دو علاقوں میں تقسیم کردیا گیا تھا۔
لیکن اس وقت حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ مناسب وقت پر یہ درجہ بحال کر دیا جائے گا۔ اب لائن آف کنٹرول پر بڑی حد تک امن ہے، فوج کے مطابق دراندازی میں کافی کمی آئی ہے، وفاقی حکومت نے کشمیر کے رہنماؤں کو بلا کر ان سے دلی میں بات چیت کی ہے جس میں خود وزیراعظم بھی شریک تھے تو شاید اس سب کو دیکھ کر کشمیری رہنماؤں کو لگ رہا ہو کہ کم سے کم مکمل ریاست کا درجہ مانگنا تو بنتا ہے۔
لیکن جیسا کشمیر پر کانگریس کی سابقہ حکومت کی مذاکرات کار پروفیسر رادھا کمار نے لکھا ہے ریاست کے درجے کی بحالی بھی عنقریب مشکل نظر آتی ہے کیونکہ اگر وفاقی حکومت اس کے حق میں ہوتی تو پھر پہلے مرکز کے زیر انتظام علاقے یا یونین ٹیریٹری کی اسمبلی کے لیے الیکشن کیوں کراتی؟