امریکی فوج صدر جو بائیڈن کی طرف سے افغانستان سے 11 ستمبر کو دی گئی ڈیڈ لائن سے پہلے ہی چند دنوں میں انخلا کرنے والی ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ بات منگل کو امریکی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائی۔
افغانستان میں امریکی سفارت کاروں کی حفاظت اور ممکنہ طور پر کابل ایئرپورٹ کی حفاظت میں معاونت کرنے والے فوجی اہلکار اس انخلا میں شامل نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں
-
افغان فوج اور طالبان کے درمیان لڑائی سے ہزاروں خاندان بے گھرNode ID: 577726
امریکی حکام نے روئٹرز کو بتایا کہ افغانستان میں 650 کے قریب فوجی سفارت خانے پر تعینات ہوں گے۔
جون کے آغاز میں 50 فیصد فوجی چلے جانے کے بعد امریکی فوج نے انخلا کی رفتار کے حوالے تفصیلات دینا بند کر دی ہیں۔
امریکی فوج کے انخلا میں تیزی ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ملک میں طالبان کے حملے بڑھ رہے ہیں۔ پینٹاگان کے مطابق طالبان نے 419 میں سے 81 اضلاع پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
دوسری جانب قطر میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
پینٹاگان نے منگل کو کہا تھا کہ امریکی فوج کے انخلا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نیٹو کا ’ریزولیوٹ سپورٹ مشن‘ بھی ختم ہو جائے گا۔ تاہم انہوں نے اس حوالے مزید سوالات کے لیے نیٹو سے رابطہ کرنے کا کہا۔
امریکہ کی زیر قیادت نیٹو فورسز کے انخلا سے تشویش پائی جا رہی ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی ہو سکتی ہے جس سے ممکنہ طور پر القاعدہ کو دوبارہ امریکہ اور دیگر اہداف پر نئے حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کا موقع ملے گا۔
