روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس سے رقم کی پاکستان منتقلی پر فیس وصولی شروع
روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس سے رقم کی پاکستان منتقلی پر فیس وصولی شروع
منگل 13 جولائی 2021 12:10
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
سٹیٹ بینک کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ ٹرانزیکشن فیس کا اطلاق روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس پر بھی ہوگا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سٹیٹ بینک کی جانب سے بینکوں کو 25 ہزار سے زائد رقم کی ڈیجیٹل منتقلی پر فیس وصول کرنے کی اجازت کے بعد بینکوں نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے بھی روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس سے رقم کی پاکستان منتقلی پر فیس وصولی شروع کر دی ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر نے تصدیق کی ہے کہ ٹرانزیکشن فیس کا اطلاق روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس پر بھی ہوگا۔ یعنی اگر بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے عزیزوں یا کسی بھی پاکستانی اکاؤنٹ میں ایک ماہ میں 25 ہزار سے زائد رقم منتقل کریں گے تو انہیں ہر ٹرانزیکشن (ادائیگی) پر صفر عشاریہ ایک فیصد فیس ادا کرنا ہوگی جو زیادہ سے زیادہ 200 روپے فی ادائیگی تک ہو سکتی ہے۔
سٹیٹ بینک کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے 171 ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے ایک لاکھ 81 ہزار سے زائد روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کھول رکھے ہیں۔ گذشتہ ماہ کے آخر تک ان اکاؤنٹس میں ایک ارب 56 کروڑ ڈالر تک رقم جمع کی جا چکی ہے۔
ٹرانزیکشن فیس کیسے وصول ہوگی؟
سٹیٹ بینک نے گذشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ اس نے پاکستان میں کام کرنے والے بینکوں کو 25 ہزار سے زائد رقم کی ڈیجیٹل منتقلی پر فیس وصول کرنے کی اجازت دی ہے۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے بدھ کو جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ’مرکزی بینک نے بینکوں اور دیگر مالیاتی سروس فراہم کرنے والوں کو ہائی ویلیو ٹرانزیکشن پر کم سے کم فیس وصول کرنے کی اجازت دے دی ہے۔‘
تاہم ’ہائی ویلیو‘ کی وضاحت کرتے ہوئے بیان میں کہا گیا تھا کہ اگر ڈیجیٹل ٹرانزیکشن کی ایک ماہ میں مجموعی حد 25 ہزار روپے سے زیادہ ہے تو بینک، صارفین سے ٹرانزیکش رقم پر 0.1 فیصد یا 200 روپے تک سروسز چارجز وصول کر سکیں گے۔
سٹیٹ بینک کے مطابق کم آمدنی والے طبقات ڈیجیٹل ٹرانزیکشن کا استعمال بلامعاوضہ جاری رکھیں گے مگر بلامعاوضہ استعمال صرف ایک ماہ میں 25 ہزار روپے تک رقم بھیجنے پر ہی ہو سکتا ہے۔
سٹیٹ بینک کی جانب سے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس پر وصولی کے بارے میں وضاحت نہیں کی گئی تھی (فوٹو: اے پی پی)
تاہم سٹیٹ بینک کی جانب سے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس پر وصولی کے بارے میں وضاحت نہیں کی گئی تھی۔ اس حوالے سے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر سٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر نے بتایا کہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں پاکستان سے رقم نہیں بھیجی جا سکتی تاہم اس اکاؤنٹ سے پاکستان کے کسی بھی بینک میں رقم بھیجی جا سکتی ہے اور فیس اور دیگر تمام ادائیگیاں بھی کی جا سکتی ہیں۔
اس حوالے سے جو چارجز مقامی اکاؤنٹس پر لاگو ہو تے ہیں وہی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین کا کیا کہنا ہے؟
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے سٹیٹ بینک کے اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے وزیراعظم کے ڈیجیٹل پاکستان وژن سے متصادم قرار دیا ہے۔
سمندر پار پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ امریکہ، برطانیہ سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں بینک سے بینک ٹرانزیکشن پر کوئی چارجز لاگو نہیں ہوتے اس لیے لوگ کیش کے بجائے بینکوں سے ڈیجیٹل ٹرانسفر کو ترجیح دیتے ہیں۔
محمد اسلم نامی صارف نے ٹویٹر پر لکھا کہ ’یہ مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔ اسی وجہ سے لوگ حوالہ (ہنڈی) کا راستہ استعمال کرتے ہیں۔ اگر آپ عشاریہ ایک فیصد چارج کریں گے تو یہ بڑی رقم ہے، سٹیٹ بینک کو اس پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ خاص طور پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے حوالے سے اس کا اطلاق نہیں ہونا چاہیے۔‘
اویس نامی صارف نے لکھا کہ ’بینک اچھے خاصے منافع میں جا رہے تھے۔ حکومت ان سے قرضہ لیتی تھی۔ ان کو بینک ٹرانزیکشن پر فیس لگا کر کیا ملا؟ تاکہ جو کام دستاویزی طور پر ہو جائے وہ بھی لوگ کیش پر کریں۔‘
منور نامی صارف نے لکھا کہ ’بہت برا فیصلہ ہے۔ سٹیٹ بینک کو چاہیے کہ بینکوں کو مفت ٹرانزیکشن پر مجبور کرے تاکہ ڈیجیٹل ٹرانزیکشن کو فروغ ملے۔ برطانیہ میں بینک مفت رقم منتقلی، فری ڈیبٹ کارڈ اور فری چیک بک دیتے ہیں تو پاکستانی بینک ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ لالچ ختم کریں۔‘
ایک اور صارف طاہر عالم نے لکھا کہ ’مضحکہ خیز فیصلہ ہے۔ دنیا میں کہیں بھی اس طرح قانونی چوری نہیں ہوتی۔ سٹیٹ بینک امیر کبیر بینکوں کو سروس چارجز کے نام پر شہریوں کو لوٹنے میں مدد دے رہا ہے۔ کیا سٹیٹ بینک خود ان بینکوں پر بھی فیس لگائے گا جب وہ کرنٹ اکاونٹس سے پیسے نکال کر کاروبار میں لگاتے ہیں؟‘
سٹیٹ بینک کا موقف
سٹیٹ بینک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’80 فیصد ٹرانزیکشنز 25 ہزار ماہانہ سے کم کی ہوتی ہیں ۔ فیس کا اطلاق یوٹیلٹی بلوں پر نہیں ہوگا۔ یہ ٹیکس نہیں ہے بلکہ فیس ہے تاکہ بینک اپنی خدمات پیش کرنے پر ہونے والا خرچ نکال سکیں۔ اس فیصلے کا مقصد عوام کی اکثریت کی طرف سے ڈیجیٹل ٹرانزیکشن کی حوصلہ شکنی کیے بغیر بینکوں اور مالیاتی اداروں کی جانب سے ڈیجیٹل خدمات کی مستقل فراہمی یقینی بنانا ہے۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر کا کہنا تھا کہ ’یہ چارجز مارچ 2020 سے قبل بھی لیے جا رہے تھے، صرف کورونا کی وبا کی وجہ سے بینکوں کو اس سے روک دیا گیا تھا۔‘