Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور پولیس ٹک ٹاکرز کو کیوں گرفتار کرتی ہے؟

اب تک درجنوں ٹک ٹاکرز پولیس کارروائی کا سامنا کر چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ٹک ٹاک پر مشہور ہونے کے لئے لوگوں کو ایسے ایسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کہ بعض دفعہ تو اس جدوجہد کا اختتام حوالات میں ہوتا ہے۔
واقعات بتاتے ہیں کہ ٹک ٹاک اور پولیس کا چولی دامن کا ساتھ بنتا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک نوجوان نے لاہور کے نشتر تھانے کے سامنے پستول لہراتے ہوئے ٹک ٹاک ویڈیو بنائی، پولیس نے نوجوان کو گرفتار کر کے جوابی ٹک ٹاک میں ’سب پھڑے جان گے‘ کا گانا ڈال دیا۔
بات یہاں نہیں رکی یہ تو ابتد تھی، اب ٹک ٹاک سٹار جنت مرزا پر اندراج مقدمہ کا ایک کیس عدالت میں چل رہا ہے، اور وجہ یہ بنی کہ انہوں نے اپنی ایک ویڈیو میں صلیب کا استعمال کیوں کیا۔ تاہم ابھی تک عدالت نے اس بات کا فیصلہ نہیں کیا کہ ان کے خلاف مقدمہ ہوگا یا نہیں۔
حال ہی میں حوالات کی سیر کر کے آنے والے لاہور کے ایک ٹک ٹاکر راہول سمجھتے ہیں کہ پولیس کو محض ویڈیوز پر لوگوں کو گرفتار نہیں کرنا چاہیے۔
راہول کہتےہیں ’میں نے ایک ویڈیو بنائی جس میں ایک دوست کا پستول استعمال کیا اس میں گولیاں نہیں تھیں وہ میں نے چلایا بھی نہیں۔ پولیس نے میرے اوپر مقدمہ درج کر لیا اور گرفتار بھی کر لیا۔ میں ان کو بتاتا رہا کہ پستول میرا نہیں ہے۔ لیکن انہوں نے میری ایک نہیں سنی باالاخر عدالت نےمیری ضمانت لی۔‘
خیال رہے کہ لاہور پولیس کے اعدادو شمار کے مطابق رواں برس کے گذشتہ چھ ماہ میں 237 ایسے مقدمات درج کیے گئے جن میں ٹک ٹاک بنانے کے لیے کسی نہ کسی ممنوعہ چیز کا استعمال کیا گیا۔
ترجمان لاہورپولیس کے مطابق ’پولیس نے جتنے مقدمات درج کیے ان سب کو گرفتار بھی کیا اب ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔ عدالت میں ضمانتوں کے باوجود یہ مقدمے ختم نہیں ہوں گے اور پولیس ان کی پیروی جاری رکھے گی۔‘

یہ شناخت کا بحران ہے؟

ٹک ٹاکرز مشہور ہونے کے لیے اسلحہ اور دیگر غیرقانونی اشیا کا سہارا کیوں لیتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ماہر نفسیات ڈاکٹر ابراہیم سویش کہتے ہیں ’یہ شناخت کا بحران ہے۔ ہماری انا کی تسکین اس بات میں پنہاں ہے کہ کتنے زیادہ لوگ ہمیں پہچانتے ہیں۔‘
’چونکہ ٹک ٹاک جیسی ایپلی کیشنز پر مقابلے کا شدید رجحان ہے اور لوگ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور وائرل ہونے کے لیے ہر وہ حربہ استعمال کرتے ‘ہیں جو ان کی دسترس میں ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر ابراہیم سویش کے مطابق ’جب آپ کوئی چیز اپنے اوپر مسلط کر لیتے ہیں تو پھر قانون اور اخلاقیات سے متعلق آپ کے تصورات بھی دب جاتے ہیں۔ ٹک ٹاکرز کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے۔‘
 

گزشتہ چھ ماہ میں 237 ایسے مقدمات درج ہوئے جہاں ٹک ٹاک بنانے کے لیے کسی نہ کسی ممنوعہ چیز کا استعمال کیا گیا۔ (فوٹو: پنجاب پولیس)

پنجاب کے ڈی آئی جی آپریشن سہیل سکھیرا سمجھتے ہیں کہ ’نفسیاتی طور پر تو بات ایسے ہی ہے کہ لوگ اپنی شناخت کے لیے یہ کرتے ہیں، البتہ اس کے ایک دوسرے پہلو جس سے پولیس کو مسئلہ ہوتا ہے وہ ہے خوف کی فضا کا قائم ہونا۔ لاہور پولیس نے ایسے ایسے ٹک ٹاکر گرفتار کیے ہیں جنہوں نے اپنی ویڈیوز بنانے کے لیے بھاری اسلحہ بھی استعمال کیا۔‘
انہوں نے بتایا ’جب آپ کلاشنکوف یا اس قبیل کے ہتھیار اٹھا کر سر عام ویڈیو بناتے ہیں اور وہ وائرل ہوتی ہے تو دیکھنے والے کے اندر اس شخص کے بارے میں ایک خوف کا تصور بھی بیٹھ جاتا ہے۔ تو میرے خیال میں ہم نے جتنے بھی لوگوں کو گرفتار کیا وہ ایک درست فیصلہ تھا۔‘
’اس سے کم از کم لوگوں کے اندر ایک احساس تحفظ قائم کرنے میں تو مدد مل رہی ہے کہ پولیس ایکٹو ہے اور جو کوئی بھی قانون کو ہاتھ میں لے گا وہ گرفت میں آئے گا۔‘
دنیا بھر میں ایک ارب صارفین رکھنے والی ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک نے حال ہی میں مدمقابل پلیٹ فارمز پر سبقت لینے کے لیے شیئر کی جانے والی ویڈیوز کا دورانیہ تین منٹ کر دیا ہے جو پہلے سے تین گنا زیادہ ہے۔

شیئر: