Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آسٹریلیا نے موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کی رپورٹ مسترد کر دی

آسٹریلیا ان ممالک میں سے ایک ہے جسے سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا ہے (فوٹو: روئٹرز)
آسٹریلیا کے وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق اس رپورٹ کو مسترد کیا ہے جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ اگر خاطر خواہ اقدامات نہ کیے گئے تو درجہ حرارت  میں اضافے کے ریکارڈ ٹوٹ سکتے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق آسٹریلیا کے وزیراعظم سکاٹ موریسن اس بات پر مصر ہیں کہ ان کا ملک موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مناسب اقدامات کر رہا ہے اور انہیں اس حوالے سے کوئی ہدف متعین کرنے کی ضرورت نہیں۔
موریسن کا کہنا ہے کہ ’آسٹریلیا اپنے حصے کا کام کر رہا ہے، میں آسٹریلوی شہریوں کی جنب سے کسی ایسے بلینک چیک پر دستخط نہیں کروں گا جس میں بغیر منصوبہ بندی کے اہداف مقرر کیے جائیں۔‘
آسٹریلیا ان ممالک میں سے ایک ہے جسے سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا ہے۔ حالیہ برسوں میں ملک شدید خشک سالی، جنگلات میں آتشزدگی اور سیلاب کے بحران سے نبرد آزما رہا ہے۔
موریسن نے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے عالمی مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک پر توجہ دینے اور نئی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔
’ہمیں ایک مختلف طریقہ اپنانے کی ضرورت ہے، ہمیں دنیا کو بدلنے کے لیے ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔‘
پیر کو ’کوڈ ریڈ فار ہیومینیٹی‘ کے عنوان سے رپورٹ میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے زور دیا تھا کہ کوئلے اور آلودگی پھیلانے والے دیگر حیاتیاتی ایندھن کا استعمال روک دیا جائے۔
گوتریس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں، اس سے پہلے کہ کوئلے اور حیاتیاتی ایندھن ہمارے سیارے کو تباہ کر دیں اس رپورٹ پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔‘
رپورٹ کے مطابق آئندہ 20 سالوں میں گلوبل درجہ حرارت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے بڑھنے کا امکان ہے۔
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن جن کا ملک کلائمیٹ کانفرنس کی میزبانی کرے گا، کا کہنا تھا کہ اگلی دہائی ہمارے سیارے کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے بہت اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ ’آئی پی سی سی رپورٹ دنیا کے لیے ایک ’ویک اپ کال‘ ثابت ہوگی تاکہ نومبر میں گلاسگو میں کلائمیٹ کانفرنس میں ملنے سے پہلے اقدامات کیے جائیں۔‘

شیئر: