وہ فیصلہ جسے لکھتے ہوئے جج کو خود تکلیف کا سامنا کرنا پڑا
وہ فیصلہ جسے لکھتے ہوئے جج کو خود تکلیف کا سامنا کرنا پڑا
جمعہ 13 اگست 2021 21:41
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
باپ کی درخواست پر فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شان گل نے سنایا (فوٹو اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ہائی کورٹ نے نیورو سرجن کی اپنی ساڑھے پانچ سالہ بیٹی کے لیے فیملی کورٹ کی طرف سے فکس کیا گیا 50 ہزار روپے ماہانہ کا خرچہ کم کرنے کی درخواست خارج کر دی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے کے آغاز میں لکھا ہے کہ ’ہم ایسے شخص کی درخواست سن رہے ہیں جو اپنے آپ کو ایک بہترین اور مشہور نیورو سرجن کہتا ہے۔ وہ اپنی ساڑھے پانچ سال کی بچی، جو کہ آٹیزم کا شکار ہے، کو خرچہ دینے سے بچنا چاہتا ہے۔ محترم ڈاکٹر نے شاید یہ نہیں پڑھا کہ دنیا میں ایک باپ کی اپنی بیٹی سےمحبت دنیا کی ساری محبتوں سے بڑی ہے۔ عدالت کو یہ فیصلہ انتہائی دکھ اور درد میں لکھنا پڑ رہا ہے۔‘
باپ کی درخواست پر فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شان گل نے سنایا ہے۔
خیال رہے کہ ملتان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر محمد جواد جان عارف نے اپنی سابقہ بیوی ڈاکٹر عائشہ چوہدری کے خلاف درخواست دی تھی کہ فیملی کورٹ نے بچی کا ماہانہ خرچہ 50 ہزار روپے طے کیا ہے جو وہ ادا نہیں کر سکتے۔ کیونکہ پاکستان میں آنے کے بعد ان کی مالی حالت کمزور ہے۔
ڈاکٹر جواد نے اپنی درخواست میں لکھا کہ وہ سعودی عرب میں نیوروسرجن تھے اور انہوں نے 2008 میں ڈاکٹر عائشہ سےشادی کی جب کہ 2016 میں ان کے ہاں ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ 2018 میں وہ سعودی عرب سے سکاٹ لینڈ منتقل ہو گئے اور جب 2020 میں وہ پاکستان آئے تو انہیں پتا چلا کہ ان کی بیوی عدالت کے ذریعے ان سے خلع لے چکی ہیں۔
ڈاکٹر جواد نے اپنی درخواست میں مزید لکھا کہ انہوں نے عدالت سے وطن واپس آنے کے چھ مہینے بعد رجوع کیا اور عدالت نے خلع کا حکم نامہ عارضی طور پر معطل کرتے ہوئے جوڑے کو صلح کا موقع دیا، لیکن یہ صلح نہیں ہو سکی۔
’جس کے بعد عدالت نے خلع کی ڈگری موثر کرتے ہوئے بچی کا خرچہ 50 ہزار روپے ماہانہ دینے کا حکم کیا۔ عام بچوں کے لیے یہ ماہانہ خرچہ 20 ہزار روپے ہوتا ہے۔‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا کہ ’فیملی عدالت کے اس فیصلے کو والد نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تو ہم نے انہیں خود روسٹرم پر آنے کو کہا اور پوچھا کہ ایک سپیلشلسٹ ہونے کی حیثیت سے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی بیٹی آٹیزم کا شکار ہے؟ اور کیا آپ کو اندازہ ہے کہ ایسے بچے کا خرچہ عام بچے سے کتنا زیادہ ہوتا ہے؟ تو انہوں نے فوری جواب دیا کہ وہ اس ساری بات کو سمجھتے ہیں۔‘
بچی کے والد نے یہ بھی کہا کہ بچی کی والدہ بھی ایک ڈاکٹر ہیں وہ کافی کما لیتی ہیں (فوٹو پکسابے)
فیصلے میں عدالت نے مزید لکھا کہ اس کے بعد انہوں نے اپنے وکیل سے مشورہ کر کے ماہانہ خرچہ 35000 روپے کرنے کی تجویز دی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔
جسٹس شان گل نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’آٹیزم ایک بیماری نہیں بلکہ ایک زندگی بھر کا ساتھ ہے۔ اس کا سادہ سا مطلب ہے آپ دوسروں سے مختلف انسان ہیں اور آپ کی دلچسپیاں اور طرزعمل غیر معمولی ہوتے ہیں۔ بچوں کا اعصابی نظام ایک مختلف طریقے سے کام کر رہا ہوتا ہے اور انہیں زندگی ویسے سمجھ نہیں آتی جیسے عام انسانوں کو آتی ہے۔ جب کہ ایک برطانوی تحقیق کے مطابق ایسے بچے کی مخصوص ضروریات پوری کرنے کے لیے تقریبا عمر بھر میں 22 کروڑ روپے (ایک ملین برطانوی پاونڈ) خرچ آتا ہے۔‘
بچی کے والد نے یہ بھی کہا کہ بچی کی والدہ بھی ایک ڈاکٹر ہیں وہ کافی کما لیتی ہیں۔ لہذا وہ بھی اس بوجھ کو برداشت کریں۔
عدالت نے اس کے جواب میں اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’یہ ایک انتہائی بے وقوفانہ دلیل ہے کہ والد بغیر ذمہ داری کے کما رہا ہے اور ماں بچی کا پالنے کا ذمہ داری اٹھا کر کما رہی ہے۔ وقت کا مطلب بھی پیسہ ہی ہے۔‘
فیصلے مہیں لکھا گیا کہ ’ماں کو ایسی بچی پالنے کے لیے اپنے وقت کو کیسے استعمال کرنا ہے؟ ان کا کام کس حد تک متاثر ہو رہا ہے، ان کو کسی مددگار کی ضرورت ہو گی، بچی کو نفسیاتی علاج کے لیے لے کر جانا اور اپنے کام کو فوری طورپر چھوڑ کر توجہ بچی پر مرکوز کرنا۔ اس سب میں خطیر رقم بھی استعمال ہوگی۔ جیسے جیسے بچی بڑی ہو گی اس کی مخصوص ضروریات بڑھیں گی۔ لہذا اس مقدمے کو ہر لحاظ سے دیکھنے کےبعد قانونی، اخلاقی اور معاشی پہلوؤں کو سجمھتے ہیں باپ کی یہ درخوست رد کی جاتی ہے۔‘