افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضے کے ایک روز بعد پیر کو طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سوشل میڈیا پر دو ویڈیوز شیئر کیں جو کسی ٹی وی چینل کی ویڈیوز سے مختلف نہیں تھیں۔
بس فرق یہ تھا کہ ان میں دکھائے گئے ’رپورٹرز‘ طالبان اہلکار تھے جو مائیک ہاتھ میں پکڑے کابل کے ایک چوک پر کھڑے ہو کر لوگوں سے رائے لے رہے تھے اور حالات سے آگاہ کر رہے تھے۔
یہ پہلی دفعہ نہیں تھا کہ طالبان نے میڈیا کے شعبے میں کسی نیوز چینل کی طرح کام کرکے دکھایا ہو بلکہ ریڈیو، ڈیجیٹل میڈیا اور خاص کر سوشل میڈیا کو انہوں نے امریکہ اور افغان حکومت کے خلاف جنگ کے دنوں میں بھی بھرپور طریقے سے استعمال کرکے مبصرین کو حیران کر دیا تھا۔
مزید پڑھیں
-
طالبان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار ہیں: چینNode ID: 591796
-
افغانستان سے افواج کی واپسی کے فیصلے پر پچھتاوا نہیں: جو بائیڈنNode ID: 592036
اہم بات یہ ہے کہ یہ وہی تنظیم ہے جس کے سربراہ ملا عمر اپنے دور حکومت میں اپنی تصویر تک بنوانا پسند نہیں کرتے تھے اور اسے غیر شرعی سمجھتے تھے۔
گذشتہ کچھ ہفتوں میں طالبان کی طرف سے صحافیوں کو بھیجی جانے والی ویڈیوز میں اضافہ ہو گیا تھا جن میں طالبان کی مختلف صوبوں میں فتوحات کو بہت مہارت سے دکھایا جاتا تھا جسے وہ سیاسی مقاصد اور پروپیگنڈا کے مقاصد کے لیے استعمال کرتے تھے۔
طالبان کی افغان اور امریکی فوج کے زیر استعمال ہیلی کاپٹرز، بکتر بند گاڑیوں اور فوجی آلات کے ساتھ طالبان کی رننگ کمنٹری کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔
اسی طرح مزار شریف اور دیگر علاقوں سے مفتوحہ محلات اور گورنر ہاؤسز میں بنائی گئی ویڈیوز بھی شیئر کی گئیں۔
اسی طرح طالبان نے افغانستان کے شہر پل خمری پر قبضے کے بعد عوام کے ساتھ سیلفیاں بھی بنائیں۔
پیر کے روز طالبان کے گذشتہ دور میں نیشنل ریڈیو اور ٹیلی وی کے ڈائریکٹر رہنے والے مولوی اسحاق نظامی نے شمشاد ٹی وی کے سٹوڈیو سے اپنا پیغام بھی نشر کروایا۔
د طالبانو د واکمنۍ پر مهال د ملي راډیو تلویزیون رییس مولوي اسحق نظامي وايي، طالبانو عمومي عفوه اعلان کړې، ټول دولتي کارکوونکي دې راشي او په پوره ډاډ او له وېرې پرته دې خپلو دندو ته دوام ورکړي. pic.twitter.com/S6jGU3WdCP
— ShamshadNews (@Shamshadnetwork) August 16, 2021
اس پیغام میں انہوں نے کہا کہ 'طالبان نے عام معافی کا اعلان کر رکھا ہے اس لیے تمام سرکاری ملازمین کو آ کر بلاخوف کام جاری رکھنا چاہیے۔'
طالبان نے ابلاغی جنگ پر کافی توجہ دی
اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے افغان امور کے ماہر اور انڈیپینڈنٹ اردو کے ایڈیٹر ہارون رشید نے بتایا کہ 'وقت کے ساتھ ساتھ طالبان نے سمجھ لیا کہ جدید دور میں میڈیا اور سوشل میڈیا اہم ہے۔'
'یہی وجہ ہے کہ اب ان کی طرف سے پیشہ ور میڈیا کے اداروں کی طرح ہی ویڈیو پیکجز بنائے جاتے ہیں۔ ان کی پبلک ریلیشن مہارت نے کئی ملکوں کی سرکاری پی آر کمپنیوں اور محکموں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'سوشل میڈیا پر ایک اکاؤنٹ بند کریں تو دوسرا کھل جاتا ہے اور پیغام آگے پہنچ جاتا ہے۔ ان کی ویب سائٹس پر اردو ، انگریزی، پشتو اور دری زبانوں میں مواد دستیاب ہے اور ان کے پاس پڑھے لکھے میڈیا ماہرین بھی موجود ہیں۔'

ہارون رشید کے مطابق 'پاکستان کے برعکس افغانستان میں ریڈیو بہت مقبول ہے۔ طالبان نے افغانستان میں ریڈیو کے میڈیم کو بہت اچھی طرح استعمال کیا۔'
’مجھے یاد ہے کہ نوے کی دہائی میں جب میں افغانستان گیا تھا تو وہاں ملا عمر ہر رات ریڈیو پر افغان عوام سے مخاطب ہوتے اور حکومتی پالیسی سے آگاہ کرتے، اس طرح وہ براہ راست عوام سے رابطے میں رہتے تھے۔'
سویڈن میں مقیم عبدالسید ایک سکیورٹی ماہر ہیں جو جنگجو گروپوں کے میڈٖیا کے استعمال کے حوالے سے تحقیق کرتے ہیں۔انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'افغان طالبان نے نائن الیون کے بعد امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے خلاف مزاحمت شروع کرنے کے بعد عسکری کارروائیوں کے علاوہ میڈیا اور ابلاغی جنگ پر بھی کافی توجہ دی۔'
'اس سلسلے میں سب سے پہلے 2006 کے قریب افغان طالبان کے مشہور کمانڈر ملا داد اللہ جن کے القاعدہ کے ساتھ قریبی روابط تھے، انہوں نے ملٹی میڈیا شاخ کی ابلاغی جنگ کو القاعدہ ماہرین کے ذریعے کافی جدت دی۔'
