افغانستان میں 2001 کی جنگ کے بعد کے اہم واقعات ایک نظر میں
افغانستان میں 2001 کی جنگ کے بعد کے اہم واقعات ایک نظر میں
پیر 16 اگست 2021 21:44
امریکہ کے افغانستان پر قبضے کے بعد حامد کرزئی پہلے صدر منتخب ہوئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ کے افغانستان پر تسلط کے 20 سال بعد طالبان نے ایک مرتبہ پھر ملک کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے طالبان کی پہلی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ہونے والے اہم واقعات کا خلاصہ پیش ہے:
2001: نائن الیون اور ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘
11 ستمبر 2001 کو امریکی سرزمین پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں امریکہ کے صدر جارج بش نے ’دہشت گردی کے خلاف‘ جنگ کا اعلان کیا تھا جس کے بعد 7 اکتوبر کو افغانستان پر پہلا فضائی حملہ کیا گیا۔ نائن الیون کے نتیجے میں تقریباً تین ہزار امریکی شہری ہلاک ہوئے تھے۔
طالبان حکومت نے القاعدہ کے سربراہ اور نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن کو اپنے ملک میں پناہ دے رکھی تھی۔
امریکہ کے افغانستان کی سرزمین پر حملے کے بعد طالبان کو جلد ہی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ طالبان 6 دسمبر 2001 کو دارالحکومت کابل کا کنٹرول ترک کرکے وہاں سے نکل گئے تھے۔
حامد کرزئی کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا اور نیٹو ممالک نے اپنی افواج افغانستان میں تعینات کرنا شروع کردیں۔
2004: پہلا صدارتی انتخاب
نئے نظام کے تحت افغانستان میں پہلے انتخابات 9 اکتوبر 2004 کو منعقد ہوئے جس کا ووٹر ٹرن آؤٹ 70 فیصد تھا۔ حامد کرزئی 55 فیصد ووٹ حاصل کر کے صدر منتخب ہوئے تھے۔
اسی دوران طالبان ملک کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں منظم ہونا شروع ہو گئے اور منتخب حکومت کے خلاف شورش کا باقاعدہ آغاز کیا۔
2008-2011: امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ
طالبان کی جانب سے حملوں میں اضافئ لے بعد افغاانستان میں امریکی کمانڈر کے کہنے پر سنہ 2008 میں فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا۔
20 اگست 2009 کے صدارتی انتخابات میں حامد کرزئی ایک مرتبہ پھر صدر منتخب ہوئے، تاہم انتخابات میں دھاندلی، محدود ووٹر ٹرن آؤٹ اور طالبان کے حملوں سے متاثر ہوئے۔
2009 میں ہی امریکی نو منتخب صدر براک اوبامہ نے افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد دگنی کر کے 68 ہزار کردی، سنہ 2010 امریکی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب پہنچ گئی تھی۔
انتخابی مہم کے دوران براک اوبامہ نے افغانستان میں جنگ کو اپنے اختتام تک پہنچانے کا وعدہ کیا تھا۔
2 مئی 2011 کو اسامہ بن لادن کو امریکی خصوصی فورسز کے آپریشن میں پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ہلاک کر دیا گیا۔
اگلے ماہ 22 جون کو براک اوبامہ نے افغانستان سے فوجوں کے انخلا کا اعلان کیا جس کے بعد 2012 کے وسط تک 33 ہزار فوجی واپس چلے گئے۔
2014: نیٹو افواج کا انخلا
سنہ 2014 میں اشرف غنی، ملک کے صدر منتخب ہوئے تاہم انتخابات دھوکے کے الزامات کی بنیاد پر متنازع قرار دیے گئے۔
اسی سال دسمبر میں نیٹو کا 13 سالہ فوجی مشن اپنے اختتام کو پہنچا تاہم افغان فوج کی ٹریننگ کی غرض سے کچھ نیٹو فوجی افغانستان میں تعینات رہے۔
سال 2015 میں طالبان نے زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ داعش بھی خطے میں فعال ہونا شروع ہو گئی اور حملوں کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا بالخصوص کابل میں۔
2020: امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ اور متنازع انتخابات
18 فروری 2020 کو ایک مرتبہ پھر اشرف غنی کو صدر قرار دیا گیا۔ صدر اشرف غنی کے سابق وزیر اور حریف عبداللہ عبداللہ نے متوازی حکومت بنانے کا اعلان کیا۔
29 فروری 2020 کو امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر میں تاریخی معاہدہ طے پایا جس میں تمام غیر ملکی افواج کو افغانستان سے انخلا کی مئی 2021 تک کی مدت دی گئی۔
انخلا کے لیے شرط رکھی گئی کہ طالبان افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کریں گے اور سکیورٹی انتظامات کی پابندی کریں گے۔
طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن مذاکرات کا آغاز ستمبر میں ہوا۔ مذاکرات میں افغان حکومت کی نمائندگی عبداللہ عبداللہ کرتے رہے۔ اسی دوران افغانستان میں پرتشدد واقعات اور ٹارگٹ کلنگز میں اضافہ دیکھنے میں آیا جس کا الزام طالبان پر عائد کیا گیا۔
مئی 2020: غیر ملکی افواج کا انخلا
یکم مئی کو امریکی اور نیٹو ممالک نے اپنے 9 ہزار 500 فوجیوں کے انخلا کا آغاز کیا، جن میں سے 2 ہزار 500 امریکی تھے۔
مئی میں امریکی فوج نے قندھار ایئربیس کا کنٹرول چھوڑا جبکہ دو جون کو اپنے سب سے بڑے فوجی اڈے بگرام کو افغان حکومت کے حوالے کردیا۔
امریکی صدر جو بائیدن نے اعلان کیا کہ ’نائن الیون حملوں کے 20 سال مکمل ہونے سے پہلے 31 اگست تک افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا مکمل ہو جائے گا۔‘
مئی سے اگست 2021: طالبان کا قبضہ
غیر ملکی فوجوں کے انخلا کا سلسلہ شروع ہوتے ہی طالبان نے ملک کے مختلف حصوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔
6 اگست کو طالبان نے پہلے صوبائی دارالحکومت زارنج پر قبضہ کیا۔ آئندہ چند دنوں قندھار اور ہرات سمیت دیگر اہم شہر بھی طالبان کے قبضے میں آتے گئے۔
31 اگست تک ملک کے شمالی، مغربی اور جنوبی علاقوں پر طالبان کا کنٹرول تھا۔
اسی دوران پینٹاگون کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ کابل کو طالبان کی جانب سے ’فوری خطرے‘ نہیں ہے۔
اگست 2021: کابل پر قبضہ
15 اگست کو جلال آباد پر قبضے کے بعد کابل کے گرد گھیرا مزید تنگ ہوگیا۔ اس وقت تک حکومت کے کنٹرول میں واحد شہر کابل ہی بچا تھا۔
اسی دن شام کو صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑ کر چلے جانے کی خبریں سامنے آئیں اور طالبان صدارتی محل میں داخل ہوگئے۔ اشرف غنی نے روانہ ہونے کے بعد نامعلوم مقام سے بیان جاری کیا جس میں انہوں نے ملک چھوڑنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے طالبان کو فاتح قرار دیا۔