افغان طالبان نے تیزی کے ساتھ ملک پر قبضہ کیا اور گذشتہ اتوار کو بغیر کوئی گولی چلائے کابل کا کنٹرول سنبھال لیا۔
طالبان عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’شہریوں کے خلاف ظلم اور جرائم کے کچھ کیسز کے بارے میں سنا ہے۔ اگر طالبان امن ا مان خراب کریں گے تو ان کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم اس افراتفری، دباؤ اور اضطراب کو سمجھ سکتے ہیں۔ لوگ سوچتے ہیں کہ ہم جواب دہ نہیں ٹھہرائے جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہے۔‘
کابل پر قبضے کے بعد طالبان نے نرم رویہ اپنایا ہے۔ اس سے قبل 1996 سے 2001 تک دور حکومت کے دوران طالبان کا موقف سخت رہا ہے۔
روئٹرز کے مطابق کابل حکومت کے سابق عہدیداروں نے طالبان سے چھپنے کی تکلیف دہ کہانیاں سنائی ہیں۔
ایسی رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ مسلح طالبان گھر گھر جا کر اپنے مخالفین کو ڈھونڈ رہے ہیں۔
16 افراد کے ایک خاندان نے بتایا کہ طالبان کے خوف کی وجہ سے وہ ایک باتھ روم میں چھپ گئے۔ بجلی بند کی اور بچوں کے منہ ڈھانپ دیے۔
ملا عبدالغنیبرادر کابل پہنچ گئے
افغان طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر نئی حکومت کی تشکیل پر مذاکرات کے لیے قندھار سے کابل پہنچ گئے ہیں۔
ایک سینیئر طالبان رکن نے اے ایف پی کو بتایا کہ تمام افغان طبقات پر مشتمل حکومت کی تشکیل کے لیے ملا برادر جہادی رہنماؤں سیاستدانوں سے ملاقات کریں گے۔
ملا عبدالغنی برادر منگل کو قطر سے قندھار پہنچے تھے۔
گذشتہ دو دنوں میں جلاالدین حقانی کے بیٹے اور طالبان رہنما انس حقانی بھی کابل میں مصالحتی کمیشن کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ سمیت کئی اہم رہنماؤں سے ملاقات کر چکے ہیں۔