پاکستان کے سفیر منصور احمد خان نے حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار سے بھی ملاقات کی ہے۔ (فوٹو: بشکریہ پاکستانی سفیر)
15 اگست کو افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد پاکستانی سفارت خانہ اس وقت دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔
نا صرف دنیا کے اکثر ممالک اپنے شہریوں کو کابل سے نکالنے کے لیے پاکستانی سفارت خانے کی خدمات حاصل کر رہے ہیں بلکہ افغانستان میں نئے انتظامی اور سیاسی ڈھانچے کے حوالے سے بھی پاکستانی سفیر افغان رہنماؤں سے ملاقات کر رہے ہیں۔
اتوار کو بھی کابل میں پاکستانی سفارت خانے نے امریکی اور ترک شہریوں سمیت 225 غیر ملکیوں کو بحفاظت ایئرپورٹ پہنچایا تاکہ وہ اپنے ملکوں کی پروازوں پر سوار ہو سکیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے سفیر منصور احمد خان نے حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار سے بھی ملاقات کی۔
اس سے قبل وہ سابق افغان صدر حامد کرزئی اور سابق نائب صدر عبداللہ عبداللہ سے بھی ملاقاتیں کر چکے ہیں۔
منصور احمد خان کے مطابق اس وقت تک پاکستان کا سفارت خانہ مختلف ملکوں کے دو ہزار کے قریب شہریوں کو افغانستان سے بحفاظت نکلنے میں مدد فراہم کر چکا ہے اور اس کے علاوہ تقریبا تمام پاکستانی شہریوں کو بحفاظت نکالا جا چکا ہے۔
پاکستان کے سرکاری ریڈیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ائرپورٹ پر ابھی کچھ چیلنجز درپیش ہیں کیونکہ ایئرپورٹ کے باہر بہت زیادہ تعداد میں لوگ کھڑے ہیں اور اندر تک رسائی میں کچھ مشکلات ہیں۔
اہم افغان رہنماؤں سے اپنی ملاقاتوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان افغانستان میں تمام فریقوں پر مشتمل وسیع البنیاد حکومت کا قیام چاہتا ہے۔ اس سے نا صرف افغانستان کی صورتحال بہتر ہو گی بلکہ خطے کے مسائل بھی کم ہوں گے۔‘
کابل میں موجود پاکستانی صحافیوں نے بھی اردو نیوز کو بتایا کہ شہر میں پاکستانی سفارت خانہ دن بدن اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
صحافی انس ملک نے کابل سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس وقت افغان دارالحکومت میں پاکستان کے علاوہ صرف چند ملکوں کے سفارت خانے کھلے رہ گئے ہیں جن میں چین، روس، ایران ، قطر اور تاجکستان شامل ہیں جبکہ مختلف ملکوں کے شہریوں کو افغانستان سے نکالنے کا کام صرف دو سفارت خانے کر رہے ہیں وہ پاکستان اور قطر ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’17 اگست تک پاکستانی سفارت خانے کا کردار کچھ زیادہ اچھا نہیں تھا اور کمیونٹی کو بھی شکایات تھی مگر 18 اگست کو سفیر منصور احمد خان کی پاکستان سے آمد کے بعد ڈرامائی تبدیلی آئی اور نا صرف پاکستانیوں کے انخلا کا عمل تیز ہوا بلکہ غیرملکیوں کی مدد کی وجہ سے پاکستانی سفارت خانے کی ساکھ بھی بہت بہتر ہوئی۔‘
سفارت خانے میں موجود پاکستانی صحافی سمیرا خان نے بتایا کہ ’ان کے سامنے غیر ملکی پاکستانی سفارت خانے میں پہنچتے ہیں اپنی دستاویزات دکھاتے ہیں اور انہیں کچھ دیر ٹینٹ لگے لان میں بٹھا کر بسوں کے ذریعے پاکستانی سفارت خانے کا عملہ ایئرپورٹ چھوڑ کر آتا ہے جبکہ بسوں کی سکیورٹی طالبان کے مقامی اہلکار مہیا کرتے ہیں۔‘
سمیرا خان کا کہنا تھا کہ ’جہاں دنیا بھر کے سفارت خانے بند ہیں ان کو فخر ہوتا ہے کہ پاکستانی سفارت خانہ نا صرف کھلا ہے بلکہ ویزے بھی جاری ہو رہے ہیں اور دنیا کے ممالک اپنے شہریوں کو کہہ رہے ہیں کہ حفاظت کے لیے پاکستانی سفارت خانے چلے جائیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس وقت سفارت خانے میں عملے کی تعداد معمول سے کم ہے تاہم وہ دن رات کام کر رہے ہیں اور تقریبا چھ ہزار سے زائد افراد کو ویزے جاری کیے جا چکے ہیں۔‘
کابل میں موجود ایک اور پاکستانی صحافی اعزاز سید کے مطابق سفارت خانہ چھٹی کے دن بھی کام کر رہا ہے۔ سفیر اور سٹاف اور میڈیا سیکشن بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ بین الاقوامی صحافیوں کو ویزے اور سہولیات دی جا رہی ہیں۔ اس وقت اپنی استعداد سے زیادہ کام کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ افغانستان کی بدلتی صورتحال میں پاکستان کی حکومت سے متعدد مغربی اور دیگر ممالک نے رابطہ کیا ہے اور جرمنی، بیلجیئم، ہالینڈ، فلپائن، پولینڈ اور ترکی کے وزرائے خارجہ نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے بات چیت کی اور اپنے شہریوں کو نکالنے میں مدد دینے پر شکریہ ادا کیا۔
وزیراعظم عمران خان سے بھی برطانیہ، جرمنی، ڈنمارک، ترکی، اور ہالینڈ سمیت کئی ممالک کے وزرائے اعظم اور سربراہان مملکت نے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے خطے کی صورتحال پر بات چیت کی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان کے بحران نے خطے میں پاکستان کی اہمیت ایک بار پھر واضح کر دی ہے۔